آج کل سابق وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا میڈیا کی مقبول ترین شخصیت بن گئے ہیں کیونکہ اس نے مقتدرہ کی زبان نہ صرف بولنا شروع کی ہے بلکہ اس کا غلط استعمال بھی کررہے ہیں۔ چونکہ وہ سیاست میں دوسرے پاکستانی رہنماؤں کی طرح اوپر سے نازل ہوئے ہیں اس لئے وہ سیاست کے تمام قید وبند سے مادر پدر آزاد ہیں۔ ٹی وی کیمرہ پر عوام الناس نے دیکھا ایک سابق وزیر اور صدر پاکستان کا سابق دست راست کس طرح سے تھانے کے اندر ایک سپاہی سے الجھتا ہوا دکھا ئی دیتا ہے۔ آواز ان کی ہم نے نہیں سنی، پولیس والوں نے یہ الزام ضرور لگایا کہ ذوالفقار مرزا نے نہ صرف بدزبانی، بد کلامی کی بلکہ مادر زاد گالیاں بھی دیں۔ یہی شخص ہمارے اردو اور الیکٹرانک میڈیا کے سیاسی ہیرو ہیں۔ اس سے قبل یہ اعزاز کپتان عمران خان، الطاف حسین، شیخ رشید جیسے لوگوں کے حصے میں آیا تھا۔ بلکہ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو خود بھی ابتدائی دنوں کی سیاست میں بد زبانی اور بدکلامی کرتے رہے۔ پاکستان کی تاریخ جھوٹے مقدمات اور کردار کشی کی کہانی ہے۔ اس میں زیادہ تر متاثرین انتہائی سنجیدہ بلوچ اور پختون سیاستدان تھے۔ میر غوث بخش بزنجو مجموعی طور پر 25سالوں تک جیل میں رہے یا گھر میں نظر بند مگر انہوں نے کبھی بھی بدکلامی نہیں کی۔ نہ خان عبدالغفار خان، عبدالولی خان اور سینکڑوں بلوچ اور پختون رہنماؤں بلکہ سیاسی کارکنوں نے سیاسی تاریخ کے کسی بھی حصے میں بدکلامی نہیں کی۔ ان کے ساتھ اور ان کے اہل خاندان کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا۔ مگر ذاتی بات ان کے زبان پر نہیں آئی۔ وہ صرف اپنے سیاسی جدوجہد، انسانی آزادی، شہری آزادیوں کی بات کرتے رہے۔ کبھی کسی نے ان کے منہ سے غیر اخلاقی اور بازاری قسم کے الفاظ نہیں سنے حتیٰ کہ ان کے ساتھ انسانیت سوز زیادتیاں ہوتی رہیں۔ انہوں نے کبھی اپنی گرفتاری پر مزاحمت نہیں کی اور قانونی عمل کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ عدالتی عمل کو مکمل کرکے حکمرانوں کو رسوا کیا۔ اب ذوالفقار مرزا صاحب بندوقیں تانے اپنی گرفتاری کی مزاحمت کررہے ہیں خواتین کے ہاتھ بندوقیں دی گئیں کہ وہ بھی باوردی پولیس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مزاحمت کریں گے۔ عدالتی افسران ان کے گھروں کا رخ نہ کریں اور عدالتی وارنٹ ان کو دکھانے کی جرات نہ کریں۔ ذوالفقار مرزا کو ذاتی شکایات ہیں انہوں نے پیپلز پارٹی کے ایک ہی اتحادی سے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی۔ کس کے ایماء پر کی، یہ وہ خود بتائیں۔ الیکشن میں دھونس اور دھاندلی سے پی پی پی کا ٹکٹ اپنے بیٹے کے لیے حاصل کیا اور پی پی پی کی قیادت سے اس وقت جھگڑا شروع کیا جب ان کو سندھ کا وزیر نہیں بنایا گیا۔ بہر حال آج کل میڈیا کے ہیرو ذوالفقار مرزا ہیں۔ اس کی ہر بات خبر ہے اور ہر خبر ایک انکشاف کا درجہ رکھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ مقتدرہ کو دونوں بڑی پارٹیاں پسند نہیں ہیں۔ پی پی اور ن لیگ دونوں پر دباؤ برقرار رکھا گیا ہے اور تیسری بڑی قوت متحدہ پر زیادہ دباؤ بڑھادیا گیا ہے۔ معلوم نہیں کہ حکمرانوں کے کیا اہداف ہیں۔ کس حد تک ان پر دباؤ برقرار رکھا جائے گا۔ البتہ کپتان عمران کی تحریک انصاف میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ ان تینوں پارٹیوں پر قبضہ کرلے یا ان پر قابو پالے اور تنہا حکومت کرسکے۔ کپتان عمران خان جنوبی پاکستان خصوصاً سندھ اور بلوچستان میں زیرو ہیں۔ وہ بھی جی ٹی روڈ کے ہی لیڈر ہیں سندھ میں بھونڈی سیاست کا مقصد مقبول قوتوں کو نیچا دکھانا ہے جو مجموعی طور پر ملک کے قومی مفاد میں نہیں ہوگا۔ بلکہ اس سے پاکستان کے مفادات کو نقصانات پہنچنے کا اندیشہ زیادہ رہے گا۔ ذوالفقار مرزا خود ہتھیار ڈال دیں اور قانون کی بالادستی تسلیم کریں اور زیادہ شائستہ طریقے سے سیاست کریں۔ بدکلامی اور بد زبانی بند کریں کیونکہ یہ سندھ کی روایت نہیں ہے ۔بھونڈی سیاست کے وارث چچورے لوگ ہیں، شریف انسان نہیں ہیں۔