بلوچستان میں جو کچھ ہوا، سب کو معلوم ہے۔ سوئی گیس کی دریافت کے بعد ملک کے کونے کونے میں گیس پہنچائی گئی یہاں تک کہ بھارت کے ساتھ سرحدی گاؤں نارروال تک پہنچائی گئی مگر اس گیس کے اصلی مالکان کو گیس کی سہولت سے آج تک محروم رکھا گیا۔ صورت حال آج یہ ہے کہ سردار ثناء اللہ زہری جو صوبائی مسلم لیگ کے سربراہ اور آنے والے وقتوں میں وزیراعلیٰ کے امیدوار بھی ہیں وہ اپنے شہر سوراب میں گیس نہیں پہنچاسکتے ۔گیس صرف قلات تک پہنچائی گئی۔ بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر خضدار میں 60سالوں میں ابھی تک گیس نہیں پہنچی، سوراب کا شہر راستے پر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وسائل پر جن حکمرانوں کا قبضہ ہے وہ یہ نہیں چاہتے کہ گیس سوراب اور خضدار پہنچے یا مکران اور خاران کے دور دراز علاقوں تک پہنچائی جائے۔ بلوچستان کے عوامی منصوبوں کے لیے وسائل نہیں لیکن دوسری جانب پنجاب کے ہر ایم این اے کے لیے چالیس چالیس ارب مختص تھے کہ ان کے ہر علاقے میں سوئی گیس پہنچائی جائے۔ مگر بلوچستان کے لیے اس کی اپنی قدرتی گیس شجر ممنوعہ ہے۔ دوسراپہلو اس کی قیمت کا ہے۔ بلوچوں کو یہ جائز شکایت ہے کہ اس کی مناسب قیمت ان کو نہیں ملی۔ کمال ہے کہ ریاست اور ریاستی ادارے اسی سلسلے میں فراڈ کرتے رہے۔ حکومت بلوچستان یا عوام کے منتخب نمائندوں کو آج تک یہ نہیں بتایا گیا کہ کتنی گیس حاصل کی گئی اور کس قیمت پر فروخت کی گئی اور اس میں بلوچستان کو کیا حصہ ملا۔ صرف اگر ہم یہ حساب لگائیں کہ اگر پاکستان میں سوئی گیس نہیں ہوتی تو سالانہ چار سے پانچ ارب ڈالر کا مزید تیل درآمد کرنا پڑتا۔ 60سالوں میں اس قدرتی گیس کی قیمت 300ارب ڈالر بنتی ہے جو پاکستان کی معیشت کو مستحکم بنانے اور پنجاب کو ترقی دینے کے لیے استعمال ہوا۔ اب ایسی صورت حال کا سامنا سندھ اور سندھ کے عوام کو ہے۔ تیل اور گیس کی معمولی سے آمدنی سندھ کو دی جارہی ہے دادو کے علاقے میں گیس کمپنی کے خلاف سندھ کے عوام کا احتجاج جاری ہے ۔ہزاروں کی تعداد میں مقامی لوگوں نے کیمپ کا محاصرہ کررکھا ہے اور پہلے وہ سندھ کا حق طلب کررہے ہیں۔ اس احتجاج کی رہنمائی سردار یار محمد رند سابق وفاقی وزیر اور ان کے صاحبزادے کررہے ہیں۔ ان کا یہ انتہائی پرامن احتجاج ہے اور بہت زیادہ موثر ہے۔ مطالبہ صرف سندھ اور سندھ کے عوام کے حقوق کا تحفظ۔ ٹھگ سیاستدانوں، پیروں، وڈیروں کی مفادات کی نگرانی پہلی بار نہیں ہورہی ہے۔ اسی وجہ سے مقامی انتظامیہ سے لے کر سندھ کی ٹھگ لیڈر شپ تک بہت زیادہ پریشان ہے کہ ان کے ہاتھوں سے سونے کی چڑیا اڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ چنانچہ انہوں نے سردار یار محمد رند کے خلاف بھونڈا الزام لگایا کہ اس نے ہزاروں قبائلی صرف بھتہ وصول کرنے اور کمپنی کو بلیک میل کرنے کے لیے جمع کررکھے ہیں۔ چنانچہ یہ الزامات لگاتے ہوئے سردار یار محمد رند کو 90دن کے لیے گھر کے اندر نظر بندی کے حکم نامے جاری کیے گئے اور اس الزام کے ساتھ کہ لاکھوں ایکڑ زمینوں کا مالک اور لاکھوں قبائلیوں کا سردار صرف بھتہ وصول کرنے کی کوشش میں ہزاروں افراد کو جمع کیا ہے ۔ رند قبائل سیون شریف اور دادو میں اپنی قبائلی زمینوں پر آباد ہیں۔ دریائے سندھ کے اس پار نواب شاہ میں ان کی لاکھوں ایکڑ زمین رند قبائل کی ہیں۔ سیاست کی بات ہے تو نواب شاہ کے مختلف حلقوں میں ان کے 50ہزار سے زائد ووٹ ہیں۔ اتنی زبردست سیاسی اور قبائلی قوت اور دولت کے ساتھ بھلا ایک معزز بلوچ سردار بھتہ کیسے وصول کرسکتا ہے۔ چونکہ ٹھگ سیاستدانوں کے مفادات کو شدید خطرات لاحق ہیں اس لئے وہ سردار یار محمد رند پر گھٹیا الزامات لگارہے ہیں اور ان کی اچھی ساکھ کو نقصان پہنچارہے ہیں۔
پرامن احتجاج کا حق
وقتِ اشاعت : May 8 – 2015