|

وقتِ اشاعت :   May 10 – 2015

بلوچستان سے ناانصافیوں کی فہرست بہت طویل ہے اور اس پر کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں ۔روز اول ہی سے بلوچستان کو وفاق پاکستان میں اس کا جائز حق اور جائز مقام نہیں دیا گیا۔ وجوہات کا علم صرف حکمرانوں کو ہے کہ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے 44فیصد یعنی آدھا پاکستان ہے۔ بلوچستان کو پسماندہ رکھ کر پاکستان کبھی بھی ترقی یافتہ نہیں کہلاسکتا۔ پنجاب کو چاہے جتنی بھی ترقی دیں، پاکستان ایک پسماندہ ملک گردانا جائے گا جب تک وہ وفاق پاکستان کا حصہ ہے۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ آدھا پاکستان ترقی یافتہ اور آدھا پسماندہ ہو۔ صرف توانائی کی ہی مثال لے لیں۔ بلوچستان میں سوئی گیس کی دریافت 1950ء کی دہائی میں ہوئی اور آج تک صرف سوئی گیس نے پاکستان اور اس کی معیشت کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ سوئی گیس ناروال تک پہنچادی گئی جو وزیر ترقیات اور منصوبہ بندی کا گھر ہے اور بھارت کے قریب ایک سرحدی آبادی ہے۔ خضدار، تربت اور بلوچستان کے بڑے بڑے شہروں کو سوئی گیس سے جان بوجھ کر محروم رکھا گیا۔ سوئی گیس کا حصہ پاکستان کی معیشت میں ایک ہزار ارب ڈالر ہے۔ صرف بیرونی زرمبادلہ کی بچت کا اندازہ لگایا جائے تو وہ بھی 400ارب ڈالر کے برابر ہے۔ اگر بلوچستان کی سوئی گیس نہ ہوتی تو حکومت پاکستان 400ارب ڈالر مزید خرچ کرکے تیل درآمد کرتا اور اپنی توانائی کی ضرورت گزشتہ نصف صدی میں پورا کرتا۔ اس کے برعکس صرف چند ارب روپے دے کر وہ بھی رائلٹیکی شکل میں، بلوچستان کو خاموش کرنے کی کوشش کی۔ ایک ڈرامہ رچاکر 10ارب روپے کی قلیل رقم ڈویلپمنٹ سرچارج کے طور پر دیا جارہا ہے۔ گیس کی اصل قیمت نہیں دی جارہی ۔ اس لئے اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ 18ویں آئینی ترمیم کی اصل روح پر عمل کرکے گیس اور تیل کے مکمل وسائل بلوچستان حکومت کے حوالے کئے جائیں تاکہ ان کو بلوچستان کی ترقی میں استعمال میں لایا جائے۔ ڈاکٹر مالک اور ان کے ساتھیوں کا بہت بڑا کارنامہ 18ویں آئینی ترمیم تھا اور آج بھی ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبائی حکومت اپنی تمام تر قوت استعمال کرکے 18ویں آئینی ترمیم پر عملدرآمد کروائے اور وفاق کا کوئی بھی حکم اور ہدایت تسلیم نہ کیا جائے۔ جب تک 18ویں آئینی ترمیم پر اس کے اصل روح کے مطابق عمل نہیں ہوتا، بے دست و پا حکومت چلانے سے بہتر ہے کہ نیشنل پارٹی اپوزیشن میں جائے اگر وفاق اس پر ناجائز دباو ڈالے اور مزاحمت ختم کرنے کو کہے۔ ورنہ حکومت میں رہ کر بھی زبردست احتجاج کیا جاسکتا ہے اور حکومت پاکستان کو مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ 18ویں آئینی ترمیم پر عمل کرے۔ فی الحال پورے بلوچستان میں مقامی اور غیر ملکی گیس اور تیل کی کمپنیوں کو کام سے روک دیا جائے۔ ان کی سیکورٹی واپس لی جائے اور ان کو یہ بتادیا جائے کہ وہ اپنے ہی رسک پر کوئی کام کرسکتے ہیں اور حکومت بلوچستان ان کے کسی بھی عمل کا ذمہ دار نہ ہوگا۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بلوچوں کو اپنی دولت، خصوصاً معدنی اور توانائی کی دولت پر حاکمیت اور ملکیت کا احساس ہونا چاہئے۔ جس کے لئے ضروری ہے سوئی گیس، اوجی ڈی سی ایل، پی پی ایل کے تمام دفاتر بلوچستان میں فوراً منتقل کئے جائیں۔ ان کو مری بگٹی علاقوں، مکران اور وسطی بلوچستان کے علاقوں میں پھیلایا جائے۔ ان تمام دفاتر کی بلوچستان منتقلی کے بغیر یہ احساس عوام میں پیدا نہیں ہوسکتا کہ وہ معدنی اور توانائی کے وسائل کے مالک ہیں اور ان کا ہر افسر بلوچستان اور اس کی حکومت کے تابع ہے کسی اور کا نہیں۔ اس لئے صوبائی حکومت باضابطہ یہ مطالبہ کرے کہ ان تمام گیس اور تیل کمپنیوں کے ہیڈ کوارٹر بلوچستان منتقل کیے جائیں تاکہ لوگوں کو یہ احساس ہو کہ وہ وفاق پاکستان میں برابر کے شریک ہیں، کسی کے بھی ماتحت نہیں ہیں۔ آئین اور قوانین کے مطابق بلوچستان کو اس کے تمام حقوق ملنے چاہئیں۔ سب سے پہلا حق توانائی کے وسائل پر ثابت کرنا ضروری ہے۔