|

وقتِ اشاعت :   May 11 – 2015

یمن کی صورت حال روز بروز پیچیدہ ہوتی جارہی ہے۔ ایران اور عرب ممالک کے درمیان میڈیا وار اور الفاظ کی جنگ میں زیادہ شدت آرہی ہے جس سے پورے خطے میں کشیدگی میں زبردست اضافہ ہوچکا ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو ایران الگ تھلگ نظر آتا ہے اور ایرانی قیادت اس بات پر بضد ہے کہ انہوں نے یمن میں انقلاب برپا کردیا ہے اور یہ انقلاب, انقلاب ایران کی طرح واپسی کے راستے پر گامزن نہیں ہوگا چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے ساتھ ہی سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے پانچ دنوں کی جنگ بندی کا اعلان کررکھا ہے تاکہ جنگ زدہ لوگوں کو امداد اور راحتیں پہنچائی جائیں مگر عربوں کی طرف سے یہ جنگ بندی مشروط ہے کہ حوثی باغی اس کی خلاف ورزی نہیں کریں گے. گزشتہ ہفتوں حوثی افواج نے اس قسم کی جنگ بندی کا فائدہ اٹھاکر بہت سے علاقوں پر نہ صرف حملے کئے بلکہ اپنی فوجی پوزیشن مستحکم بنائی۔ اس بار عربوں کے اتحاد نے جنگ بندی کو حوثی افواج کی کارروائی سے مشروط کردیا ہے۔ یہ تجویز امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے دورہ ریاض کے دوران پیش کی گئی اور اس کا مقصد جنگ سے متاثرین کی امداد کرنا اور ان کو راحتیں فراہم کرنا ہے۔ دوسری جانب امریکہ نے سعودی عرب سے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کو زیادہ جدید اسلحہ فروخت کرے گا اس میں F-35جنگی جہاز شامل نہیں ہوگا۔ وہ صرف اسرائیل اور اسرائیل کی سیکورٹی کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ ان اسلحہ میں ایسے بم بھی شامل ہیں جو زیر زمین خندقوں کو تباہ کرسکتے ہیں یعنی Bunker Busterبم۔ اس اسلحہ کی فروخت سے یہ خدشات بڑھ گئے ہیں کہ امریکہ کے بجائے زیرزمین خندقوں کو تباہ کرنے والا بم سعودی عرب ایران کے خلاف استعمال کرے گا البتہ ایران ایسا نہیں کرے گا۔ ایران نے اپنے بعض ایٹمی پلانٹ اصفہان میں زیرزمین تعمیر کئے ہیں اور ان میں افزودگی کا عمل جاری ہے۔ پہلے امریکی افواج کے کمانڈر نے یہ اعلان کیا تھا کہ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں امریکہ ان زیر زمین تنصیبات کو تباہ کرے گا اور اس میں وہی مخصوص Bunker Busterبم استعمال ہوں گے اب شاید امریکہ نے یہ ارادہ بدل دیا ہے اور سعودی عرب کو یہ تمام جدید ترین ہتھیار دئیے جارہے ہیں کہ مناسب وقت پر ان کو استعمال میں لایا جائے اور سعودی عرب کے جہاز اور میزائل یہ بم ایران کے ایٹمی تنصیبات پر داغے۔ اور تابکاری کی صورت میں امریکہ کو مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے اور اس کی ذمہ دار ی سعودی عرب ہو جو ایران کے خلاف بڑے عرب محاذ کا رہنما اور لیڈر ہے۔ بہر حال صورت حال میں کشیدگی کی بنیادی وجہ ایران کا یمن شیعہ انقلاب پر مکمل یقین ہے اور آخر وقت تک ایران یمن کے شیعہ انقلاب کی حمایت ترک نہیں کرے گا۔ ادھر سعودی عرب اور اس کے اتحادی حوثی آبادی والے علاقوں میں بے رحمانہ بمباری کررہے ہیں۔ ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ یمن کا بنیادی ڈھانچہ خصوصاً شمالی علاقوں میں مکمل تباہ ہوچکا ہے۔ یمن کی مکمل ناکہ بندی جاری ہے۔ سمندر کے راستے عرب اور امریکی بحری بیڑے ساحل کو بند کئے ہوئے ہیں کہ ایران کسی طرح بھی حوثی افواج کو رسد نہ پہنچاسکے۔ فضا پر عربوں کا مکمل کنٹرول ہے۔ ایران نے دوبار فضائی راستے سے یمن میں انسانی امداد پہنچانے کی کوشش کی۔ دونوں بار ایرانی ہوائی جہازوں کو یمن کی فضا میں داخل ہونے سے نہ صرف روکا گیا بلکہ ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ سعودی عرب کا رخ نہ کریں ورنہ ان کے ہوائی جہاز پر حملہ کیا جائے گا۔ آخر کار ایرانی ہوائی جہاز کو امداد سمیت ایران دوبارہ دھکیل دیا گیا۔ ابھی تک اس قسم کے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں کہ ایران نے اپنے رویے میں نرمی پیداکی ہے یا سعودی اور اس کے اتحادیوں نے بمباری بند کی ہے۔ البتہ حوثی باغیوں نے سعودی شہروں پر راکٹ حملے جاری رکھے ہوئے ہیں جو سعودی عرب کے لئے باعث تشویش ہے۔