|

وقتِ اشاعت :   May 13 – 2015

مچھ/کو ئٹہ : بلوچستان کی سینٹرل جیل مچھ میں پھانسی کے منتظر قیدی صولت مرزا کو بالآخر تہرے قتل کے جرم میں پھانسی دیدی گئی۔ صولت مرزا کی میت طیارے کے ذریعے کراچی منتقل کردی گئی۔ جیل حکام کے مطابق صولت مرزا کو منگل کی علی الصبح چار بجکر تیس منٹ پر تختہ دار پر لٹکایا گیا ۔ پھانسی کی نگرانی جوڈیشل مجسٹریٹ ہدایت اللہ محمد شہی نے کی۔ اس موقع پر مچھ جیل کے سپرنٹنڈنٹ محمد اسحاق زہری اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر وحیدرالرحمان خٹک کے علاوہ صولت مرزا کے بھانجے اور بھتیجے شامل تھے۔پھانسی کے موقع پر مچھ جیل کے اندر اور اطراف میں سخت سیکورٹی کے انتظامات کئے گئے تھے۔ قانونی اور ضابطے کی کارروائی کے بعد میت ورثاء کے حوالے کردی گئی۔ صولت مرزا کی میت ان کے بھانجے اسامہ نہال نے وصول کی۔ میت کے ہمراہ صولت مرزا کے ایک اور بھانجا اور بھتیجا بھی موجود تھا ۔ صولت مرزا کی میت ایدھی کے ایمبولنس کے ذریعے پولیس اور لیویز کی سخت سیکورٹی میں کوئٹہ کے پٹیل روڈ پر واقع ایدھی ہوم منتقل کی گئی ۔ بعد ازاں میت کوئٹہ ایئر پورٹ لے جائی گئی جہاں سے میت پی آئی اے کی پرواز پی کے 363سے دو بجے کراچی کیلئے روانہ کردی گئی۔پھانسی سے قبل مچھ جیل کے میڈیکل آفیسر ڈاکٹر سجاد حیدر نے صولت مرزا کا طبی معائنہ کیا اور ا ن کی حالت کو درست قرار دیا۔ جیل ذرائع کے مطابق صولت مرزا نے جیل انتظامیہ کو کوئی تحریری وصیت نامہ نہیں لکھ کر دیا تاہم انہوں نے آخری دنوں میں جو دو تین خطوط تحریر کیے تھے وہ ان کے رشتہ داروں کے حوالے کئے گئے ہیں۔جیل ذرائع کے مطابق صولت مرزا عمومی طور پر جیل میں اپنی یادداشتیں قلمبند کیا کرتے تھے۔ پھانسی سے قبل بھی انہوں نے کوئی خاص بات نہیں کی بلکہ جیل کے اہلکاروں سے معذرت کی۔ انہوں نے کہا کہ صولت مرزا نے پھانسی سے قبل ان تین چار قیدیوں سے بھی آخری ملاقات کی تھی جن کو ان کے ساتھ گزشتہ سال کے اوائل میں کراچی سے مچھ جیل منتقل کیا گیا تھا۔ اس سے قبل پیر کے روز صولت مرزا سے ان کی اہلیہ ، بھائی اور بہنوں سمیت اور تیس کے قریب رشتہ داروں کی آخری ملاقات بھی کرائی گئی تھی ۔بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق صولت مرزا کی جانب سے یہ آخری خواہش ظاہر کی گئی تھی کہ مقتولین کے خاندانوں سے معافی مانگنے کے لیے پھانسی کی سزا کو ایک ہفتے کے لیے مؤخر کیا جائے۔ جیل انتظامیہ کے اہلکار نے اس آخری خواہش کی تصدیق نہیں کی لیکن ان کا کہنا تھا کہ پھانسی کی سزا کو مؤخر کرانے کے لیے صولت مرزا کے خاندان کی جانب سے کوششیں جاری تھیں۔یاد رہے کہ متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے صولت مرزا کو تین افراد کے قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ منیجنگ ڈائریکٹر کے ای ایس سی ملک شاہد حامد کو کراچی کے علاقے ڈیفنس میں رہائش گاہ 750بی ساؤتھ سی ویو سے دفتر جاتے ہوئے5جولائی 1997کی صبح گارڈ خان اکبر اور ڈرائیور اشرف براہوی کے ہمراہ قتل کیا گیات ھا۔ اس کیس سے متعلق پہلی اور آخری گرفتاری نومبر1998میں سامنے آئی ۔پولیس آفیسر کراچی چوہدری اسلم نے دبئی سے واپسی پر ایئر پورٹ سے صولت مرزا کو گرفتار کیا ۔مئی 1998میں صولت مرزا کو تہرے قتل میں سزائے موت سنادی گئی اور16سال بعدصولت مرزا کو 12مئی 2015کو دی گئی۔ اس سے پہلے صولت مرزا کا ڈیتھ وارنٹ 11مارچ 2015کو ہوا تھا جسے 19مارچ کو پھانسی پر لٹکایا جانا تھا تاہم پھانسی کی سزا پر عمل درآمد سے چندگھنٹے قبل نشر کیے گئے ویڈیو بیان میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین سمیت جماعت کی اہم قیادت پر سنگین الزامات عائد کیے تھے۔یہ انٹرویو سامنے آنے کے بعد ان کی سزائے موت پر عمل درآمد 72گھنٹے کیلئے روک دیا گیا۔ 24مارچ کو دوسری بار صولت مرزا کے ڈیتھ وارنٹ جاری کئے گئے اوریکم اپریل پر پھانسی دی جانی تھی تاہم صولت مرزا پھانسی کی تاریخ میں صدر مملکت نے صوابدیدی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ایک بار ایک ماہ کیلئے توسیع کردی۔ وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کو صولت مرزا کے بیان کی روشنی میں جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم تشکیل دینے کی ہدایت کی تھی۔اس دوران جے آئی ٹی نے صولت مرزا سے تفتیش بھی مکمل کرلی۔ گذشتہ ہفتے صولت مرزا کی اہلیہ نگہت مرزا نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائرکی تھی کہ ان کے شوہر کے حالیہ بیان کی روشنی میں شاہد حامد قتل کیس کی دوبارہ تحقیقات کی جا رہی ہیں، اس لیے جب تک یہ تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتیں، پھانسی کی سزا پر عمل درآمد روکا جائے۔تاہم 2مئی کو تیسری بار صولت مرزا کے ڈیتھ وارنٹ جاری ہوئے اور پھانسی کی تاریخ بارہ مئی مقرر ہوئی اوراس بار انہیں مہلت نہ مل سکی۔ صولت مرزا نے ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین پر کے ای ایس سی کے سابق سربراہ شاہد حامد کے قتل کا حکم دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ’ ’الطاف حسین جو بابر غوری کے ذریعے ہدایات دیتے تھے، ایک دن بابر غوری کے گھر پر بلا کر الطاف حسین نے کہا کے ای ایس سی کے ایم ڈی کو مارنا ہے۔‘ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایم کیو ایم گورنر سندھ عشرت العباد کے ذریعے اپنے حراست میں لیے گئے کارکنوں کو تحفظ دیتی ہے۔ ان کے بقول ’ ایم کیو ایم کے کہنے پر پیپلز پارٹی کی حکومت میں انھیں جیل میں بھی سہولیات دی گئیں۔‘‘