ساحل مکران آبنائے ہرمز سے شروع ہوکر کراچی کے ساحل پر ختم ہوتا ہے۔ یہ تقریباً 3ہزار کلومیٹر طویل ساحل ہے جس کا 1800کلومیٹر ایران کے ماتحت ہے اور 1200کلومیٹر پاکستان کے پاس ہے۔ ساحل مکران پر درجنوں بندرگاہیں اور سینکڑوں ماہی گیری کے بندر اور بستیاں ہیں۔ دنیا کا 44فیصد تیل آبنائے ہرمز سے گزرتا ہے۔ اس سمندری راستے سے خلیجی ممالک میں پہنچا جاسکتا ہے گزشتہ کئی سالوں سے اس پورے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اس کشیدگی کے باعث دنیا کے مختلف ممالک کے 50سے زیادہ جنگی جہاز اور کم سے کم تین طیارہ بردار جہاز اس خطے میں اپنے اپنے ممالک کے مفادات کی حفاظت کررہے ہیں۔ آئے دن مختلف ممالک کے جنگی جہاز اس خطے میں جنگی مشقیں کرتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھار متحارب ممالک کے جنگی جہازوں کا اسی خطے اور آبنائے عدن میں آمنا سامنا رہتا ہے جس سے خطرناک صورت حال پیدا ہوسکتی ہے۔ حالیہ ہفتوں میں یہ خبریں آئی تھیں کہ ایرانی جنگی جہاز کو وارننگ کے بعد راستہ تبدیل کرنا پڑا تھا۔ اس وقت امریکی اور مصری جنگی جہاز آبنائے عدن میں گزررہے تھے اور ایک دوسرے کے قریب آگئے تھے۔ مگر ایران نے اس خبر کی فوری تردید کردی۔ اس کے بعد آج ہی ایرانی میڈیا میں یہ خبر نمایاں طور پر شائع ہوئی ہے کہ امریکی اور فرانسیسی جنگی جہازوں کو ایرانی بحریہ کی طرف سے وارننگ کے بعد راستہ تبدیل کرنا پڑا تھا۔ اسی طرح فضا میں امریکی جاسوس ہوائی جہازوں کو بھی آبنائے عدن میں اسی قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ایران گزشتہ کئی سالوں سے یہ دعویٰ کرتا آرہا ہے کہ ایرانی بحریہ بہت مضبوط اور طاقتور ہے اور آبنائے عدن اور آبنائے ہرمز کی دفاع کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس لئے اس پورے خطے سے امریکی، برطانوی، فرانسیسی اور یورپی جنگی بیڑہ نکل جائے اور ایران آزادانہ جہاز رانی کی سلامتی کی یقین دہانی کراتا ہے۔ جنگ یمن سے قبل ایران کے اس دعویٰ میں بہت وزن تھا کہ غیر اور دور دراز ممالک کے جنگی جہاز پورے خطے سے نکل جائیں۔ یمن کے واقعات اور ایران کے حامی حوثی افواج کا یمن پر قبضہ کے بعد خلیجی ممالک میں ایک خوف کی فضا طاری ہوگئی اور تمام ممالک ایران کو اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھنے لگے اور ان کو بیرونی ممالک خصوصاً امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی بحری قوت کا سہارا لینا پڑا۔ برطانیہ نے تو بحرین میں اپنا مکمل اڈہ قائم کرلیا۔ امریکی اور عرب ممالک کے جنگی جہاز یمن کی سمندری ناکہ بندی کئے ہوئے ہیں کہ ایران حوثی افواج کو رسد، اسلحہ اور فوجی کمک نہ پہنچائے۔ یمن کے سمندری حدود کی مکمل ناکہ بندی جاری ہے۔ ممکن ہے ایران اس ناکہ بندی کو توڑنے کی کوشش کرے اور حوثی افواج کو رسد پہنچائے۔ عرب ممالک موجودہ صورت حال میں اس کو ’’جنگ کا ایک عمل‘‘ سمجھیں گے کہ ایران نے عرب ممالک کے خلاف اعلان جنگ کررکھا ہے۔ بہر حال خطے کی صورت حال زیادہ کشیدہ ہوتی جارہی ہے۔ ادھر امریکہ نے یہ اعلان بھی کردیا ہے کہ امریکہ سعودی افواج کو زیرزمین خندقوں کو تباہ کرنے والا بم فروخت کرے گا۔ اس کا یہ مطلب لیا جارہا ہے کہ امریکہ سعودی عرب کے ذریعے ایران کے جوہری تنصیبات جو زیر زمین ہیں اصفحان کے قریب ہیں حملہ کرے گا اگر اس خطے کے باعث پورے خطے میں تابکاری کے اثرات پھیلے تو ان کا ذمہ دار سعودی عرب ہوگا امریکہ اس سے بری الذمہ قرار پائے گا۔ بہر حال اگلے چند ہفتے پورے خطے کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ اسی دوران ایران کے جوہری پروگرام پر ایک حتمی فیصلے کا انتظار کیا جارہا ہے ایران نے انتہائی سخت موقف اختیار کیا ہوا ہے۔ سخت گیر موقف رکھنے والے ایرانی اراکین پارلیمان یہ چاہتے ہیں کہ ایران امریکہ اور دنیا کے دوسرے پانچ بڑے ممالک کے ساتھ مذاکرات بند کردے کیونکہ امریکہ آئے دن ایران پر حملے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ صورت حال کو زیادہ کشیدہ بنارہا ہے۔ بہر حال ایران کے ساتھ جنگ کی صورت میں امریکہ خلیجی ممالک کے دفاع کا ضامن ہوگا اور ایرانی میزائل حملے سے ان کا دفاع کرے گا۔
خلیجی ممالک کا دفاع امریکہ کرے گا
وقتِ اشاعت : May 14 – 2015