جنرل پرویز مشرف حکم نہ دیتا، گوادر پورٹ کی تعمیر کبھی بھی شروع نہیں ہوتی، چونکہ یہ سپہ سالار پاکستان کا حکم تھا اس لئے اس کی تعمیر شروع ہوئی ۔ کیونکہ ہمارے ملک میں کسی بھی اعلیٰ شخص کی حکم عدولی ممکن ہے مگر سپہ سالار کے حکم کی نہیں۔ اس لئے گوادر پورٹ کے ساتھ ساتھ مکران ساحلی شاہراہ پر بھی کام شروع ہوااور یہ شاہراہ مکمل ہوا۔ اب اس کے آثار قطعاً نہیں ہے کہ گوادر پورٹ کب مکمل ہوگا؟۔ ویسے ہماری ناقص معلومات کے مطابق گوادر پورٹ کو کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے۔ پنڈی، کاشغر شاہراہ صرف اور صرف قراقرم کے پہاڑی راستوں تک محدود رہے گا۔ گوادر پورٹ کا مستقبل وسط ایشیائی ممالک اور ان کو تجارتی راہداری سے منسلک ہے۔ پورے پاکستان کی ضرورت کراچی اور پورٹ قاسم پوری کررہا ہے۔ 1992میں جب وسط ایشیائی ممالک کے وزرائے خارجہ کا ایک اجلاس کوئٹہ میں ہوا اس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ گوادر کی بندرگاہ کو وسط ایشیائی ممالک، خصوصاً افغانستان اور ترکمانستان سے ریل اور سڑک کے ذریعے ملادیا جائے گا تاکہ اس روٹ سے پوری دنیا وسط ایشیائی ممالک، خصوصاً افغانستان سے تجارت کریں۔ ہم نے اپنے انگریزی روزنامے میں اس پر ایک خصوصی ضمیمہ شائع کیا تھا اور گوادر، ترکمان ریلوے لائن اور سڑک کی واضح نشاندہی کی تھی ۔اس وقت سے گوادر اور اس سے ملحقہ بندرگاہوں کے لئے یہ منصوبہ تھا کہ دنیا کا سب سے بڑا آئل اور گیس ٹرمینل پسنی کے قریب بنایا جائے گا۔ اسی مناسبت سے یورپی ممالک نے گوادر اور پسنی کے درمیان ایک بہت بڑا جہاز سازی کا کارخانہ لگانے کا منصوبہ بنایا۔ یہ منصوبہ گزشتہ دس سالوں سے وزارت منصوبہ بندی اور ترقیات کے سرد خانے میں موجود ہے۔ ان تمام باتوں سے ظاہر ہے کہ بین الاقوامی معاشی قوتیں ریل اور سڑک کے ذریعے گوادر کو ترکمانستان سے ملانا چاہتی ہیں۔ اور وسط ایشیاء کا تیل اور گیس اسی راستے بھارت اور دوسرے ملکوں کو فروخت ہوگا۔ چونکہ امریکی کمپنی یہ سرمایہ کاری کررہی تھی اور اس کا فائدہ پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی پہنچنا تھا اس لئے اس کو سیاسی وجوہات کی بناء پر ناقابل قبول بنایا گیا۔ ایران صرف بین الاقوامی تجارتی راہداری سے چھ ارب ڈالر بندرعباس کے ذریعے کمارہا ہے۔ بندر عباس سے ترکمانستان کا راستہ 2800کلومیٹر ہے جبکہ گوادر یا ایران کے پورٹ چاہ بہار سے یہ فاصلہ کم ہوکر صرف 1400کلومیٹر رہ جاتا ہے۔ ایران اپنی تجارتی راہداری کی سہولیات کی وجہ سے چھ ارب ڈالر سے 10ارب ڈالر کمانے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس مقصد کے لئے اس نے چاہ بہار پورٹ کو ترقی دی بلکہ بھارت اس کو کنٹینر ٹرمینل میں تبدیل کررہا ہے۔ پاکستان کا اس سلسلے میں ایک روپیہ بھی کمانے کا ارادہ نہیں ہے۔