دہائیوں بعد گوادر سے ایک اچھی خبر آئی ہے مچھلی اور سمندری حیات سے بھری کنٹینرز گوادر سے دبئی بذریعہ بحری جہاز روانہ کئے گئے ہیں تاکہ مکران ساحل کے ماہی گیروں کو بین الاقوامی منڈی تک براہ راست رسائی حاصل ہو۔ بلوچ ماہی گیر اتنے بڑے سمندر کے مالک ہوتے ہوئے بھی اپنی مچھلی ،جھینگا اور دوسرے پروڈکٹس کوڑیوں کے دام مقامی ایجنٹوں کو فروخت کرنے پر مجبور تھے۔ یہ مڈل مین بڑے بڑے کمپنیوں کے ایجنٹس تھے جو ماہی گیروں سے سستے داموں تازہ مچھلی اور جھینگا خریدتے تھے اور کراچی کی بندرگاہ یا ماہی بندر پر بڑے بڑے تاجروں کے ہاتھوں فروخت کرتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے ماہی گیروں خصوصاً وہ جو ساحل کے قریب رہتے ہیں، ان کو کچھ حاصل نہیں ہوتا تھا۔ وہ صرف زندہ رہتے تھے اور مشکل سے بچے پالتے تھے۔دوسری جانب 1200کلومیٹر ساحل کے مالکان بلوچستان کے حصے میں کچھ بھی ہاتھ نہیں آتا تھا۔ سب کے سب کراچی اور سندھ کے کھاتے میں جمع ہوتا تھا کہ 15فیصد ساحل کے مالک پاکستان کے 85فیصد مچھلی کے پیداوار کے مالک بتائے جاتے تھے۔ جب محکمہ فشریز کی بات آتی تھی تو سب کچھ کراچی کے حصے میں جاتا تھا۔ بلوچستان کو نظر انداز کیا جاتا رہا۔ حالیہ سالوں میں ساحل کے پاس بڑے بڑے ماہی گیری کے جہاز لنگر انداز ہونا شروع ہوئے تھے اور یہ جہاز چھوٹی چھوٹی کشتیوں سے مچھلی خریدتے، ان کو جہاز پر ہی صاف کرتے اور ان کو غیر ملکی زرمبادلہ میں برآمد کرتے تھے۔ جس سے ماہی گیروں اور حکومت پاکستان کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا تھا۔ لہٰذا بلو چ قوم پرست پارٹیاں اور مقامی ماہی گیر یہ مطالبہ کرتے رہے کہ گوادر سے مچھلی اور اس کے دوسرے پروڈکس کو براہ راست بین الاقوامی منڈی میں فروخت کیا جائے۔ اس سے مقامی ماہی گیروں کو مچھلی کی مناسب قیمت بھی ملے گی اور حکومت کو ٹیکس تاکہ وسیع اور عریض ساحل سمندر کو ترقی دیا جائے۔ یہ پہلی بار ہے کہ گوادر سے بذریعہ بحری جہاز مچھلی دبئی کی منڈی کو روانہ کی گئی ہے اسی طرح سے بعض مقامات پسنی، اورماڑہ اور جیونی کے ساحل پر بھی یہ سہولیات مہیا کئے جائیں تاکہ ماہی گیروں کے بنیادی مفادات کا تحفظ یقینی ہو۔ اسمگلنگ خواہ ایران کے لئے ہو یا گلف ممالک یا کراچی کے لئے وہ مکمل طور پر بند کی جائے۔ سب سے بڑی ماہی کی منڈی گوادر میں لگائی جائے اور گوادر میں ہی ان کو صاف اور پروسیس کے کارخانے لگائے جائیں تاکہ مچھلی اور اس کے دوسرے پروڈکس کی بین الاقوامی ٹھیکیگوادر میں ہی وصول ہو۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ناجائز مچھلی کے شکار پر پابندی لگائی جائے بلکہ اس پر سختی سے عمل کیا جائے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سے سخت سزائیں دی جائیں ۔محکمہ ماہی گیری اور سیکورٹی اداروں میں کرپشن کا مکمل خاتمہ کیا جائے ان تمام ماہی گیری کی کشتیوں کو فوراً پکڑا جائے اور ضبط کیا جائے جن کی پشت پناہی سیکورٹی اداروں کے چند افراد اور افسران کررہے ہیں۔ یہ رشوت ستانی ہے۔ صوبائی حکومت پر فرض ہے کہ ان تمام ماہی گیری کی کشتیوں کو ضبط کرے جو غیر قانونی طور پر بلوچستان کے ساحل پر مچھلیاں پکڑ رہے ہیں اور بلکہ خطرناک غیر قانونی جال بھی استعمال کررہے ہیں جس سے مجموعی طور پر سمندری حیات کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ سمندری حیات کا تحفظ اگلے نسلوں کے لئے ضروری ہے۔ ایسے سرکاری ملازمین کے خلاف کارروائی ضروری ہے جو غیر قانونی ماہی گیری میں ملوث ہیں۔
گوادر پورٹ۔۔۔ پہلی اچھی خبر
وقتِ اشاعت : May 14 – 2015