ملک میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے جس کے باعث اندرونی اور بیرونی سطح پر ملکی امیج پر کافی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اگرچہ چین نے پاکستان کے ساتھ اپنی دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے 51 معاہدوں پر دستخط کیے اور بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہی ہے، جس میں بلوچستان سے گزرنے والی گوادر کاشغر روٹ خاص اہمیت رکھتی ہے اگر یہ روٹ واقعی اپنے پرانے نقشے پر موجود ہے تو اس سے بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں معاشی تبدیلی رونما ہوسکتی ہے۔ جس طرح وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہاکہ راہداری کے حوالے سے کچھ غیرملکی ایجنڈے ابہام پھیلا رہے ہیں مگر ہم ملک کی ترقی کیلئے تمام وسائل کو بروئے کار لائینگے ۔اسی سلسلے میں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کے لیے اے پی سی بھی بلائی۔ ملک میں ایک طرف دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے تو دوسری طرف ضرب عضب آپریشن بھی جاری ہے جس سے یقیناََ ملک میں امن وامان کی صورتحال پہلے سے کافی بہتر ہوئی ہے مگر کراچی سانحہ کے رونما ہونے کے بعد زمبابوے کی کرکٹ ٹیم نے اپنا دورہ پاکستان منسوخ کیا جس سے ایک غلط تاثر پیدا ہوا۔ مگر چیف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کا فوری طور پر کراچی پہنچنا اور کورکمانڈر اجلاس پر تمام امور پر بات کرنا ایک نئے منصوبہ بندی اور دہشت گردی کے تدارک کیلئے از سر نو جائزہ بھی شامل ہوسکتا ہے جو آگے چل کر ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے مفید ثابت ہوسکے۔ پاکستان میں چین کے علاوہ دیگر ممالک کا تجارتی معاہدہ نہ کرنا بیرونی مداخلت کی موجودگی کو ثابت کرتا ہے جو پاکستان میں امن قائم ہونے نہیں دیتے جس کا ذکر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کرچکے ہیں۔ سیاسی مبصرین ملکی معیشت کی ترقی کو خاص کر امن وامان سمیت دیگر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے حوالے سے دیکھتے ہیں جن میں خاص کر افغانستان اور ایران شامل ہیں جن کے ساتھ مختلف منصوبوں پر کام کرکے ملکی معیشت سمیت امن وامان کی صورتحال کو بہتر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا جاسکتا ہے مگر یہ بات انہی ملکوں کی بہترین پالیسی پر مبنی ہے کیونکہ اس وقت افغانستان بھی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے جہاں منظم فوج،پولیس سمیت سیاسی ڈھانچہ کمزور ہے اگر افغانستان بھی اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتی ہے تو اسے بھی اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات قائم کرنے ہونگے کیونکہ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت افغانستان کے ساتھ بہترین تعلقات کیلئے کوشاں دکھائی دیتی ہے اور دونوں ممالک کی ترقی کو امن سے مشروط کرتے ہیں جو ایک مثبت سوچ ہے اگر افغان حکام بھی اسی سوچ کو لیکر دوستانہ تعلقات کو مضبوط بنائیں تو دونوں ممالک میں نہ صرف دیرپا امن قائم ہوگا بلکہ معاشی انقلاب بھی برپا ہوگا جس سے دونوں ممالک کے مختلف شعبوں میں ترقی آئے گی جس کے برائے راست اثرات عوام پر پڑیں گے۔ ماضی بعید پر اگر نظر دوڑائی جائے تو امن کے ذریعے ہی معاشی انقلاب لایا جاسکتا ہے اس کے بغیر ملکی استحکام بہت کمزور رہے گی جو ہمیں جنگ عظیم اول اور دوئم کی تاریخ واضح طور پر دکھاتی ہے۔ پاکستان کی جانب سے اب بھی دیگر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کیلئے سیاسی و عسکری قیادت ایک پیج پر نظر آتے ہیں جو کہ نیک شگون ہے۔ اب دیگر ممالک کو بھی پاکستان کے بارے میں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا کیونکہ پاکستان نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کا قلع قمع کریگا جو انتشار کی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں۔