|

وقتِ اشاعت :   May 17 – 2015

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی بس پر مسلح افراد کی فائرنگ سے 45 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کراچی کے واقعے کے بعد اپنا تین روزہ دورہ سری لنکا منسوخ کرنے کے بعد کراچی پہنچے ۔پولیس کے مطابق یہ واقعہ بدھ کی صبح صفورا چورنگی کے قریب پیش آیا جب تین موٹر سائیکلوں پر سوار حملہ آوروں نے ایک مسافر بس کو نشانہ بنایا۔پولیس حکام نے جائے وقوعہ کے دورے کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ مختلف ہسپتالوں سے اب تک 45 افراد ہلاک جبکہ 10سے زائد زخمی ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔حملے میں ہلاک ہونے والوں میں خواتین بھی شامل ہیں جبکہ متعدد خواتین زخمی بھی ہیں جنھیں میمن ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔حملے کے بعد بس کا زخمی ڈرائیور خود بس چلا کر قریب واقع میمن ہسپتال پہنچا۔آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں کی تعداد چھ تھی جنھوں نے بس کو روکا، پہلے بس کے ڈرائیور کو گولی ماری اور پھر بس میں گھس کر بلاتفریق فائرنگ کی۔سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے متفرق ہتھیار استعمال کیے جن میں سب مشین گن اور پستول دونوں شامل ہیں،مذکورہ بس میں اسماعیلی شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے 60 سے زائد افراد سوار تھے جو الاظہرگارڈن سے عائشہ منزل پر واقع اسماعیلی جماعت خانے کی جانب جا رہے تھے۔ زخمیوں کے مطابق حملہ آور پولیس کی وردی میں ملبوس تھے اور ان کی وردیوں کی وجہ سے ہی روکے جانے پر ڈرائیور نے بس روک دی تھی۔ وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ ایک منصوبہ کے تحت یہ کارروائی کی گئی ہے ۔وزیراعلیٰ سندھ نے ہلاک شدگان کے لواحقین کو پانچ پانچ لاکھ جبکہ زخمیوں کو دو دو لاکھ روپے دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔قائم علی شاہ نے علاقے کے ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کو معطل کرکے ڈی آئی جی سے تین دن میں رپورٹ طلب کرلی ہے۔ ملک میں دہشت گردی کے ایسے انگنت واقعات پہلے بھی رونما ہوچکے ہیں ، مگر اسماعیلی برادری کوکراچی جیسے بڑے شہر میں نشانہ بنانا یقیناًسیکیورٹی کی ناقص منصوبہ بندی کو ظاہر کرتی ہے اگرچہ کراچی میں رینجرز کے حالیہ آپریشن سے شہر میں کسی حد تک امن وامان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے مگر اس حملے نے شہریوں کو ایک بارپھر چونکا دیا ہے۔کراچی جوملک کا معاشی حب کہلاتاہے یہاں امن وامان کو ہرصورت میں بحال کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ اس سے قبل بھی کراچی شہر میں حساس مقامات کو نشانہ بنایاجاچکا ہے مگر یہ صرف ایک شہر کامسئلہ نہیں بلکہ القاعدہ کے ہائی کمان اسامہ بن لادن کے قتل کے بعد اور حالیہ وزیرستان آپریشن سے کسی حد تک اس نیٹ ورک کو کمزور کیاجاچکا ہے مگر سیاسی مبصرین بارہا اس کا امر کا تذکر ہ کرچکے ہیں کہ القاعدہ نے مختلف چھوٹے چھوٹے گروپس بنائے رکھے ہیں جن سے وہ کارروائی کراتا ہے اور ان کی مالی معاونت سمیت اسلحہ ودیگر چیزیں فراہم کرتی ہے ۔ پاکستان نے نائن الیون واقعہ کے بعد امریکہ کے ساتھ ملکردہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن کاکردار ادا کیا جس کے بعد دہشت گردوں نے ملک میں انتشار کی صورتحال پیدا کردی ہے ۔ سیاسی تجزیہ کار اس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ جب تک پاکستان، افغانستان تعلقات مستقل بنیاد پر مضبوط نہیں ہونگے اور ایک دوسرے کے ساتھ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے نیک نیتی کے ساتھ کام نہیں کرینگے تو دونوں ممالک کو ان کالعدم تنظیموں کی جانب سے حملوں کا خطرہ موجود رہے گا۔ ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے اس وقت سیاسی وعسکری قیادت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کو کافی حد تک سراہا جارہا ہے مگر دہشت گردی کے اس ناسور سے نکلنے اور عوام کو دیرپاامن دینے کیلئے مزید سیکیورٹی پالیسیوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے جس سے ایسے دلخراش واقعات کی روک تھام ممکن ہوسکے۔آج پوراملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور دہشت گردوں نے ملک کے دیگر حصوں میں چھوٹے چھوٹے نیٹ ورک بنا رکھے ہیں جومختلف کارروائیاں کرتے ہیں۔پشاور سانحہ کے بعد یہ دوسرابڑ ا واقعہ کراچی میں اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ پیش آیاہے۔ ملکی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹھوس حکمت عملی اور دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ ناگزیر بن چکا ہے جو ملکی سالمیت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ آج ملکی عوام دہشت گردی کے خلاف سیاسی وعسکری قیادت کے فیصلوں سے مکمل متفق دکھائی دیتی ہیں کیونکہ عوام ملک کی خوشحالی اور مستقبل روشن کیلئے ایک نیا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں جو عوام کی ایک دیرینہ خواہش ہے۔