|

وقتِ اشاعت :   May 18 – 2015

کراچی : وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ سانحہ صفورہ میں ملوث افراد تحقیقاتی اداروں کے فوکس پر آچکے ہیں ملوث دہشتگردوں کو عبرت کا نشان بنا دیں گے، اس سانحہ کی تین سمتوں میں تحقیقات کی جارہی ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی “را “یا غیر ملکی ہاتھ ملوث ہونے کے بارے میں حتمی بیان دینا قبل از وقت ہو گا ۔ سانحہ کی تحقیقات کے دوران تین یا چار گرفتاریاں ہوئی ہیں ، جن کے بارے میں فی الوقت وضاحت نہیں کر سکتا ۔ کراچی میں قیام امن کے لیے اہم آپریشنل فیصلے کر لیے گئے ہیں ۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد ملک بھر میں سیکیورٹی اداروں نے انٹیلی جنس بنیادوں پر 10ہزار آپریشن کرکے 36 ہزار لوگوں کو گرفتار کیا ہے جبکہ قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے بعد 3 ہزار آپریشن کئے گئے ہیں ۔ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مجرمان کی تحویل کے لیے بات چیت ہو رہی ہے ۔ ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں گرفتار ملزم معظم علی کی جے آئی ٹی کے بارے میں تفصیلات آئندہ دو سے تین روز میں جاری کروں گا ۔ پورے ملک میں اسلحہ لائسنس کے اجراء کے لیے یکساں پالیسی بنائی جائے گی ۔ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کے لیے حالات معمول پر ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو گورنر ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی آنے کا مقصد سانحہ صفورہ گوٹھ پر ہونے والی تحقیقات پر بریفنگ حاصل کرنا تھی ۔ دہشت گردوں نے اسماعیلی برادری کو نشانہ بنایا ہے ، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ پولیس ، رینجرز اور خفیہ اداروں نے اس واقعہ پر ہونے والی تحقیقات سے آگاہ کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعہ کے اصل حقائق تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ تحقیقات مثبت سمت میں جاری ہے ۔ تحقیقات سے قبل کوئی حتمی بیان دینا مناسب نہیں ہے ۔ تحقیقاتی اداروں کو وقت دیا جائے ۔ جو بھی واقعہ میں ملوث ملزم ہو گا ، اسے سامنے لائیں گے اور اس کے پیچھے موجود ہاتھ کو بھی بے نقاب کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ہمارے سکیورٹی ادارے برسر پیکار ہیں ۔ یہ ٹی ٹوئنٹی یا 50 اوورز کا میچ نہیں ہے ، جو آسانی سے جیت لیا جائے ۔ 14 برس سے ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے ۔ اس جنگ کا آغاز 2001 کے بعد ہوا ۔ 2009ء سے 2011ء تک ملک میں بدترین حالات تھے ۔ جب سے ہم حکومت میں آئے ہیں ہم نے پہلے پر امن طریقے سے حالات ٹھیک کرنے کی کوشش کی ۔ مذاکرات کیے ۔ لیکن دوسری جانب سے ڈبل گیم اور منافقت دیکھنے میں آئی ، جس کے بعد ہم نے فوجی آپریشن شروع کیا ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہو گیا ہے ۔ اگر ایک دھماکہ ہو جاتا ہے تو سکیورٹی اداروں کی مہینوں کی محنت پر پانی پھر جاتا ہے لیکن ہم پر عزم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آپریشنز کے باعث کراچی ، بلوچستان اور ملک کے دیگر علاقوں میں حالات بہتر ہوئے ہیں ۔ بہت دہشت گرد مارے گئے ہیں ۔ کچھ سرحد پار کرکے فرار ہو گئے ہیں ۔ کچھ زیر زمین چلے گئے ہیں ۔ کچھ گاؤں دیہاتوں اور شہروں میں چھپ گئے ہیں ۔ چوہدری نثار نے کہا کہ دشمن آسان ہدف کو ٹارگٹ بنا رہے ہیں ۔ میں نے وزیر اعلیٰ سے معلوم کیا کہ اسماعیلی کمیونٹی کو سکیورٹی فراہم کیوں نہیں کی گئی ۔ وزیر اعلیٰ اس حوالے سے تحقیقات کر رہے ہیں ۔ اسماعیلی کمیونٹی کی بس پر حملے میں غریب اور دو وقت کی روٹی کمانے والوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ یہ دہشت گرد آخرت میں تو جہنم میں جائیں گے لیکن ہم انہیں عبرت کا نشان بنا دیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں پرائیویٹ سکیورٹی ایجنسیاں ہزاروں کی تعداد میں ہیں ۔ 300 سے زائد کراچی میں ہیں ۔ ان میں بھرتی افراد تربیت یافتہ نہیں ہیں اور ان کے نظام میں شفافیت نہیں ہے ۔ اس لیے ہم پورے ملک میں پرائیویٹ سکیورٹی ایجنسیوں کی رجسٹریشن اور اسلحہ لائسنس کے اجراء کے لیے صوبائی اور حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر یکساں پالیسی بنا رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں قیام امن کے لیے آپریشنل فیصلے کر لیے ہیں ۔ جس کے بارے میں آگاہ نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس سے دشمن کو فائدہ ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ دشمن چاہتا ہے کہ دہشت گردی کرکے وہ قوم کو تقسیم کر دے لیکن ہماری ، سیاسی ، سول اور عسکری قیادت دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے متحد ہیں ۔ جو خامیاں ہیں ، ان کو دور کیا جائے گا ۔ اسلام آباد میں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں دہشت گردی کے خلاف پالیسی کے لیے مزید اہم فیصلے کئے جائیں گے ۔ پاکستان کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ۔ پوری قوم کا عزم ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اس وقت تک جاری رہے گی ، جب تک آخری دہشت گرد کا خاتمہ نہیں ہو جاتا ۔ ایک سوال کے جواب میں چوہدری نثار نے کہا کہ سانحہ صفورہ کی تین سمتوں میں تحقیقات جاری ہیں ۔ کراچی بہت بڑا شہر ہے ۔ یہاں پر پناہ گزین افراد کی تعداد زیادہ ہے ۔ میں ان کو پیغام دیتا ہوں کہ وہ خود کو رجسٹریشن کر وا لیں ورنہ ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ نارا کو نادرا میں ضم کر دیا گیا ہے ۔ غیر ملکی افراد کی رجسٹریشن کے قانونی فریم ورک پر سیاسی جماعتوں سے بھی مشاورت کریں گے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نیو یارک ٹائمز کی خبر پر تبصرہ نہیں کر سکتا ہوں کیونکہ میں نے اس خبر کو پڑھا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ سے استعفیٰ مانگنا مناسب نہیں ۔ امریکا ، برطانیہ ، فرانس اور اسپین میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے لیکن وہاں تو کسی نے استعفیٰ طلب نہیں کیا ۔ جب دہشت گردی کے خلاف جنگ کی جاتی ہے تو اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میری گورنر سندھ سے ملاقات ہوئی ہے ۔ پریس کانفرنس مجھے کرنا تھی ، اس لیے وہ نہیں آئے ۔ گورنر سندھ کو ہٹانے کے حوالے سے سوال پر وزیر داخلہ نے کہا کہ پہلے وزیر اعظم آئے تھے ، اب میں آیا ہوں ۔ گورنر سندھ سے ملاقات ہوئی ہے ۔ گورنر سندھ کے لیے حالات نارمل ہیں ۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پیر کو گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان سے سیاسی صورتحال اور امن و امان کے معاملات پر اہم تبادلہ خیال کیا اور طویل مشاورت کی ۔ وہ رینجرز ہیڈ کوارٹرز کے دورے اور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ سے چیف منسٹر ہاؤس میں ملاقات کے بعد دوبجے دوپہر گورنر ہاؤس پہنچے تھے اور میڈیا سے بات چیت کے لئے سہ پہر ساڑھے تین بجے کا وقت طے کیا گیا تھا تاہم گورنر سندھ سے اہم مشاورت کے باعث انہوں نے اپنی پریس کانفرنس شام پونے 5 بجے شروع کی۔ معلوم ہوا ہے کہ گورنر سندھ سے ملاقات کے دوران وزیر داخلہ نے ان سے بعض اہم سیاسی معاملات اور امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے گفتگو کی تاہم چوہدری نثار علی خان جب میڈیا سے گفتگو کے لئے گورنر کے دفتر سے باہر آئے تو صحافیوں نے گورنر عشرت العباد خان کے حوالے سے دریافت کیا کہ آپ کے میزبان نظر نہیں آرہے، وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پریس کانفرنس میں نے بلائی ہے اور میری سیاسی پریس کانفرنس ہے اس لئے گورنر صاحب کو تکلیف دینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔