|

وقتِ اشاعت :   May 20 – 2015

کوئٹہ:  بلوچستان اسمبلی میں اسپیکر اور گورنر کی صوبے میں عدم موجودگی پر اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی جب جے یو آئی کے رکن اسمبلی عبدالرحمن کھیتران نے پوائنٹ آف آرڈر پر بتایا کہ بلوچستان میں اس وقت آئینی بحران ہے اسپیکر 16 جبکہ گورنر 17 تاریخ سے بیرونی دورے پر ہیں صوبے میں 48 گھنٹے سے کوئی آئینی سربراہ نہیں ، عبدالقدوس بزنجو جو اس وقت قائمقام اسپیکر ہیں کو گورنر ہاؤس میں ہونا چاہیے اس پر وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ صوبے میں کوئی بحران نہیں آئین کے مطابق اگر گورنر اور اسپیکر موجود نہیں ہوتے توپھر اس وقت صدر کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ جس کو چاہے قائمقام گورنر مقرر کرسکتا ہے ہماری اطلاعات کے مطابق صدر نے چیف جسٹس کا نام قائمقام گورنر کے لئے دیا ہے ۔ صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 104 میں اس کی وضاحت موجود ہے ۔ شاہدہ رؤف نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد چیف جسٹس قائم مقام گورنر نہیں بن سکتے صدر نے یہ کام لاعلمی میں کیا ہے ۔ ڈپٹی اسپیکر فوری طور پر صدارت چھوڑ دیں اور گورنر ہاؤس چلے جائے اس پر ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ چونکہ میرا قائمقام گورنر شپ کا نوٹیفکیشن آج ہی جاری ہوا ہے اور اگر میں نے گورنر کا عہدہ سنبھالنا ہے تو اس کے لئے مجھے باقاعدہ حلف لینا ہوگا ۔ رقیہ ہاشمی نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد چیف جسٹس قائمقام گورنر نہیں بن سکتا جو اجلاس جاری ہے یہ غیر قانونی ہے ۔ ڈاکٹر حامد اچکزئی نے کہا کہ یہ ایک آئینی مسئلہ ہے اس پر پوائنٹ سکورنگ نہ کی جائے ۔ انہوں نے کہاکہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو وزیراعلیٰ ہے اور وہ اس وقت موجود ہے ۔ پشتونخوا میپ کے سید لیاقت آغا نے کہاکہ صدر ایسی صورت میں کسی کو بھی گورنر نامزد کرسکتے ہیں ۔ مولانا عبدالواسع نے کہاکہ یہ ایک آئینی مسئلہ ہے جس کی وضاحت شاید ہم ارکان نہ کرسکے ۔ ایڈووکیٹ جنرل جن کی یہاں نشست بھی ہوتی ہے ان سے اس بارے میں رائے لی جائے ۔ عبدالرحیم زیارتوال نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ آئین کے آرٹیکل میں وضاحت موجود ہے اور اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہے ۔