|

وقتِ اشاعت :   May 20 – 2015

پٹ فیڈر لاکھوں ایکڑ زمین کی آباد کاری اور کاشتکاری کی ہی نہیں بلکہ لاکھوں افراد کے پینے کی پانی کا واحد ذریعہ ہے ۔ محکمہ آبپاشی اور وفاقی ادارے یہ سرکاری اعلان تو کردیتے ہیں کہ پٹ فیڈر ضروری مرمت اور تعمیر کیلئے تین ماہ یعنی یکم اپریل سے 30جون تک بند رہے گا ۔ لیکن وہ اس کا متبادل انتظام نہیں کرتے کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ پینے اور گھریلو ضروریات کے لئے پانی کہاں سے حاصل کریں ۔ حکومت یا حکومتی اداروں کی طرف سے یہ اعلان یا نوٹس جاری کرنا کافی نہیں کہ پانی اگلے تین ماہ تک نہ صرف کاشتکاری بلکہ گھریلو استعمال کے لئے بھی نہیں ملے گا۔ غیر ذمہ دار حکومت اور اس کے اعلیٰ ترین افسران صرف حکم صادر کرنا جانتے ہیں یا نادر شاہی حکم نامہ لوگوں کو بتا دیتے ہیں اور اسکی ذمہ داری نہیں لیتے کہ عام لوگ لاکھوں کی تعداد میں پینے کا پانی کہاں سے حاصل کریں گے۔ اس خطے میں صنعتیں نہیں ہیں البتہ اسکول اور اسپتال بڑی تعداد میں موجود ہیں جو پانی صرف پٹ فیڈر سے ہی حاصل کرتے ہیں وہ اسکول اور اسپتال اور دوسرے ادارے بھی تین ماہ کیلئے بند کیے جائیں گے۔ گزشتہ سالوں بھل صفائی یا معمولی مرمت کیلئے پانی کا ناغہ صرف دو ہفتوں کے لئے ہوا کرتا تھا ۔ اس بار مکمل تین ماہ خصوصاً گرمی کے تین ماہ میں لوگوں کو ضرورت کے لئے پانی نہیں ملے گا وہ بھی ایک حکم نامے کی صورت میں ۔کراچی ‘ کوئٹہ اور دوسرے بڑے شہروں میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے ان شہروں میں پانی وافر مقدار میں لوگوں کے لئے نہیں ہے۔ اس طرح سے بڑے بڑے شہروں میں پانی کی قلت کا دائرہ دانستہ طورپر بڑھانے کے لیے پٹ فیڈر کو بند کرنے کا اعلان کیا گیا ۔ صوبائی حکومت اور خصوصاً چیف سیکرٹری کو اس بات کا سختی سے نوٹس لینا چائیے کہ حکام بالا نے متبادل انتظام کیے بغیر پانی کی بندش کا کیوں اعلان کیا ؟ ان متعلقہ افسران سے پوچھا جائے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ۔ عوام الناس کو اذیتیں پہنچانے کی کوشش کیوں کی ۔ ان سے جواب طلبی کی جائے ۔ جیکب آباد اور قریبی علاقے جہاں پر نہری نظام مو جود ہے وہاں سے لوگوں کو ضرورت کیلئے پانی کی فراہمی کا انتظام کیاجائے خصوصاً اوستہ محمد ‘ جیکب آباد اور ان کے قرب و جوار کے علاقوں سے ٹینکروں کے ذریعے پانی پہنچایا جائے ۔علاقے کے صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کے اراکین پر یہ فرض ہے کہ وہ متعلقہ ایوان میں اس بات کو اجاگر کریں کہ نوکر شاہی نے بغیر متبادل انتظامات کے لاکھوں انسانوں کا پانی بند کردیا ہے اور یہ بندش تین ماہ تک رہے گی اس مسئلے کو صوبائی اسمبلی ‘ قومی اسمبلی اور سینٹ میں اٹھایا جائے اور اہم انسانی امور کی بنیاد پر اس پر بحث کی جائے ۔اگر علاقے کے اراکین اسمبلی یہ کام نہیں کریں گے تو وہ بھی اس کام میں ملوث تصور کیے جائیں گے جس کا مقصد عوام الناس کو اذیتیں پہنچانا ہے ۔ وزیراعلیٰ خود بھی اس کا نوٹس لیں اور اس بات کی ذاتی نگرانی کریں کہ لوگوں کو ضرورت کے مطابق متبادل ذرائع سے پانی مل رہا ہے اور ان افسران سے جواب طلبی کی جائے جنہوں نے یک طرفہ طورپر پورے علاقے کا پانی بند کرنے کا حکم دیا ہے ۔