آزاد ماہرین معاشیات کو اس وقت حیرانگی ہوئی جب وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو ملک کے نائب وزیراعظم کے برابر اختیارات رکھتے ہیں ‘ نے اس بات سے انکار کیا کہ بلوچستان کے ترقیاتی بجٹ میں وہ اضافہ کریں گے یعنی موصوف بلوچستان کو کچھ بھی نہیں دینے کا ارادہ رکھتے ہیں اور انہوں نے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو ہدایت کی کہ وہ متعلقہ فورم میں اس مسئلے کو اٹھائیں، وہاں سے جا کر بلوچستان کے ترقیاتی بجٹ میں اضافہ کرائیں ۔ بہر حال اسحاق ڈار نے اپنی معذوری کا اظہار کردیا شاید اسحاق ڈار کی وزیراعلیٰ بلوچستان سے سالوں بعد یہ پہلی ملاقات ہے ۔ اس ملک میں وزیراعظم اور وزیر خزانہ سے ملاقات کرنا وزیراعلیٰ کے لئے ایک مشکل امر ہے کیونکہ دونوں حضرات متکبر لوگ ہیں وہ بادشاہ ہیں عوامی نمائندے یا عوامی خادم نہیں ہیں ۔ وزیراعلیٰ نے صرف اپنا مدعاپیش کیا جو وزیر خانہ کو خود اپنے طورپر معلوم ہونا چائیے تھا کہ بلوچستان کو ترقیاتی فنڈز نہیں ملتے ۔ کئی دہائیوں سے بلوچستان کو اس کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا مکمل فنڈ کبھی نہیں ملا۔ ہر سال کے آخر میں اخبارات میں یہ انکشافات ہوتے آرہے ہیں کہ بلوچستان کو پچاس فیصد فنڈ نہیں ملا ۔ گزشتہ کئی سالوں سے وفاقی ترقیاتی پروگرام پر کبھی بھی اور کسی بھی سال مکمل اخراجات نہیں ہوئے۔ آدھی رقم خرچ ہوئی ، آدھی وفاق نے مختلف بہانوں سے ہڑپ کر لی ۔ یعنی مشکل سے 44فیصد رقبہ پر صرف بیس ارب روپے یا اس سے بھی کم خرچ ہوتے آرہے ہیں ۔ گوادر پورٹ کا بڑا چرچا چل رہا ہے اور اس پر پوری ایک دہائی میں ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا ۔ اس بات کو چھوڑ دیں کہ گوادر پورٹ کے منصوبے کو مکمل کرنا ہے ۔ گوادر ‘ رتو ڈیرو ‘ شاہراہ پر 2005ء سے کام بند پڑا ہے ۔ گوادر کے شہریوں کے لیے پینے کو پانی نہیں ہے ۔ ان حالات کے پیش نظر اگر وزیراعلیٰ بلوچستان پانچ سو ارب روپے کا اضافی ترقیاتی بجٹ مانگتے ہیں وہ پاکستان سے غداری نہیں کررہے ہیں ۔ وہ بلوچستان کے عوام کے حقوق کا تحفظ اور ان کی ترقی چاہتے ہیں ۔ ادھر اسحاق ڈار کے صوبے پنجاب میں صوبائی ترقیاتی پروگرام 500ارب روپے کا ہے ۔ اتنی ہی رقم وفاق ترقی کے لئے خرچ کررہی ہے ۔ بین الاقوامی ادارے اور دوسرے ممالک بھی 500ارب روپے پنجاب پر سالانہ خرچ کررے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں پنجاب کا سالانہ ترقیاتی بجٹ 1500ارب روپے کا ہے ۔ اور بلوچستان کا صرف بیس ارب روپے کا ۔ اب تو چین بھی پنجاب میں گیارہ ارب ڈالر خرچ کررہا ہے ۔ یہ رقم پنجاب کو صرف نواز شریف اور ان کے ولی عہد وزیراعلیٰ پنجاب سے ملی ہے ۔ ملکی معاشی نظام کی وجہ سے یہ سرمایہ کاری نہیں ہورہی ہے ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کے مطالبے پر سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں ۔ بلوچستان کی اپنی وسیع سرزمین ہے اس کی سمندری حدود 1200کلو میٹر ہے ۔ آئندہ آنے والے وقت میں سمندر کی اہمیت ہوگی ۔ سرمایہ کاری سمندری راستوں سے ہوگی پنجاب کے میدان سرمایہ کاری کو اپنی طرف متوجہ نہیں کرسکیں گے۔ ان کی حیثیت ایک Landlockedخطے کی ہوگی جو سمندری گزر گاہوں کا محتاج ہوگا۔ اپنے مال صرف اور صرف سمندری راستوں سے بر آمد کر سکے گا۔ اگر شہباز شریف ‘ وزیراعلیٰ پنجاب کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ دوسر ے ممالک سے مذاکرات کرکے سرمایہ حاصل کریں تو یہ حق بھی اسی شدت کے ساتھ ملک کے تین دوسرے وزرائے اعلیٰ کو بھی ملنا چائیے ۔ اس طرح سے یہ عمل کے ذریعے ثابت ہونا چائیے کہ ملک کے تمام صوبے برابر ہیں اور ان کے حقوق بھی برابر ہیں ۔ بلوچستان کی شکایات پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں اس لئے وفاق کو آنے والے بجٹ میں بلوچستان کی حقیقی ضرورتوں کا خیال رکھنا چائیے اور کم سے کم اس کی ترقیاتی بجٹ کو دو گنا کرنا چائیے۔ صرف ایک آدھ ارب روپے کے اضافے سے کام نہیں چلے گا اس کو بلوچستان اور اس کے عوام کے ساتھ ایک امتیازی سلوک سمجھا جائے گا جو وفاق پاکستان کے لئے ایک خطر ناک بات ہوگی ۔بلوچستان کے غیر ترقیاتی اخراجات پہلے ہی بہت زیادہ نہیں حالیہ سالوں میں آپریشن اور امن وامان کے نام پر رہی سہی کسر پوری کر لی گئی ہے۔ ترقیاتی بجٹ کو ان آپریشنز پر خرچ کیا جارہا ہے ۔ اگر یہ تمام آپریشنز بند ہوں گے تو کچھ رقم ترقی کے لئے بچ سکے گی ۔ ورنہ بلوچستان گزشتہ ستر سالوں سے پسماندہ ہے اور آئندہ ایک صدی تک مزید پسماندہ ہی رہے گا اگر بلوچستان پسماندہ رہے گا تو پاکستان بھی ترقی یافتہ ممالک میں شمار نہیں ہو سکتا کیونکہ پاکستان کا 44فیصد رقبہ اور اس کی 1200کلو میٹر طویل سمندری پٹی پسماندہ ہی رہے گی۔
بلوچستان کے ساتھ وفاق کا غیر ہمدردانہ رویہ
وقتِ اشاعت : May 21 – 2015