پورے ملک میں بڑی شدت کے ساتھ لوڈشیڈنگ جاری ہے ۔ یہاں تک کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ جو صوبے کے سب سے بڑے انتظامی اختیارات کے مالک ہیں وہ بھی زبردست احتجاج کررہے ہیں کہ بلوچستان کے عوام کے ساتھ ظلم ہورہا ہے ا ور کوئی سننے والا نہیں۔ درجنوں شہروں میں جہاں گرڈ کے ذریعے بجلی فراہم نہیں کی جارہی ہے، وہاں تمام ڈیزل سے چلنے و الے بجلی گھر غیر اعلانیہ طورپر بند کردئیے گئے ہیں ۔ یہ کس کے حکم پر ہوا ہے ؟ وزیراعلیٰ سے ان تمام انتظامی کارروائیوں کی اجازت کیوں نہیں لی گئی باوجود اس کے کہ وہ انتظامیہ کے انتظامی اور آئینی سربراہ ہیں۔ ابھی تک یہ اطلاعات نہیں ملیں ہیں کہ ان تمام شہروں میں بجلی بحال کردی گئی ہے یا نہیں ۔دوسری جانب وزیراعلیٰ نے یہ احتجاج ریکارڈ کروایا کہ بلوچستان میں بجلی کی ضرورت 1600میگا واٹ ہے جبکہ واپڈا صرف پانچ سو میگا واٹ بجلی فراہم کررہی ہے ،کیوں؟ کیا بلوچستان کے عوام اس ملک کے دوسرے درجے کے شہری ہیں کہ ان کو ضرورت کے مطابق بجلی نہ دی جائے حالانکہ بلوچستان میں چار بڑے بڑے بجلی گھر قائم ہیں۔ کوئٹہ میں حبیب اللہ کوسٹل پاور ‘ حبکو پلانٹ حب شہر کے قریب اور ڈیرہ مراد جمالی میں اوچ پاور کے دو پلانٹ ہیں جو مجموعی طورپر 2500میگا واٹ بجلی پیدا کررہے ہیں۔ یہ تمام بجلی بلوچستان کے بجائے دوسرے صوبوں کو دی جارہی ہے کیونکہ بلوچستان کے شہری اس ملک کے دوسرے درجے کے شہری ہیں اور ان کا اپنی ہی پیدوار پر کوئی حق نہیں ہے ۔ہونا تو یہ چائیے کہ صرف ایک ہزار میگا واٹ بجلی دوسرے صوبوں کو دی جانی چائیے اور 1500میگا واٹ بجلی بلوچستان کے لوگوں کو ملنی چائیے کیونکہ بلوچستان کے شہری بھی بجلی کی ا تنی ہی قیمت ادا کررہے ہیں جو دوسرے صوبے کے لوگ دے رہے ہیں وہ کوئی اضافی رقم نہیں دے رہے اور نہ ہی وہ آسمانی مخلوق ہیں اور نہ ہی بلوچستان کے عوام سے برترہیں ۔دوسری جانب وزیراعظم کو سرکاری بریفنگ میں غلط اطلاعات فراہم کی جارہی ہیں یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ بڑے شہروں میں چھ گھنٹے لوڈشیڈنگ اور چھوٹے شہروں اور قصبوں میں آٹھ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے۔ ہم کوئٹہ شہر میں اخبار چھاپتے ہیں اور روزانہ ہمارے فیڈر میں سات گھنٹے کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ صبح چار بجے سے سات بجے تک ‘ صبح آٹھ بجے سے دس بجے تک اور شام چھ بجے سے آٹھ بجے تک ۔ سات گھنٹے روزانہ لوڈشیڈنگ جاری ہے، غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ اور ٹرپنگ اور ہاف وولیٹج اس سے الگ ہے ۔ دن میں دو سے تین بار پاور بریک ڈاؤن ضرور ہوتا ہے ۔ اور گھنٹوں بجلی غائب رہتی ہے ۔مہینوں کے آخری دنوں میں مرمت کے نام پر ماہانہ پچاس سے ساٹھ گھنٹے لوڈشیڈنگ جاری ہے ۔ درحقیقت کیسکو کے حکام جھوٹ بول کر اور مرمت کے نام پر لائن لاسز یعنی لائن پر جو بجلی ضائع ہوتی ہے، اس کی تلافی مرمت کے نام پر کرتے ہیں ۔ جو غیر قانونی بلکہ غیر اخالاقی حرکت ہے جو صارفین کو ریاستی ادارے کی جانب سے دھوکہ دینے کے مترادف ہے ۔
جہاں تک بلوچستان کے دور دراز علاقوں کا تعلق ہے وہاں پر روزانہ بیس گھنٹوں لوڈشیڈنگ اعلانیہ طورپر جاری ہے ۔سرکاری افسر نے دبے الفاظ میں اور دھوکہ دینے کی خاطر وزیراعظم کو بریفنگ میں بتایا کہ جہاں پر واجبات کی وصولی نہیں ہوتی ،وہاں لوڈشیڈنگ زیادہ ہے ۔ یہ انہوں نے نہیں بتایا کہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں کتنی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے ۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ بلوچستان میں سولر انر جی اور Roof Top Solutionکے تحت بجلی کے مسائل کو حل کیاجائے ۔ اس سے نہ گرڈ لائن ہوں گی اور نہ لائن لاسز ہوں گی اور نہ ہی ڈیزل سے چلنے والے جنریٹروں سے ڈیزل اور ایندھن کی چوری ہوگی اور نہ ہی واپڈ ایا حکومت پاکستان ٹیوب ویلوں پر زر تلافی ادا کرے گا۔ ان سب کا واحد حل صرف اور صرف سولر انر جی ہے ۔ سولر پاور کی صورت میں ہر گھر خود کفیل اور روشن رہے گا۔ واپڈا کی خرمستیاں ختم ہوجائیں گی لاکھوں افراد کو تنخواہوں کی ضرورت نہیں رہے گی ۔
وزیراعظم کو غلط اطلاعات اور بلوچستان میں لوڈشیڈنگ
وقتِ اشاعت : May 25 – 2015