|

وقتِ اشاعت :   May 27 – 2015

تمام حقائق کو سامنے رکھے جائیں تو اب بھی گوادر ایک پھلتا پھولتا بندر گاہ نظر نہیں آتا گوکہ بندر گاہ کے تین برتھ چین نے تعمیر کر لیے ہیں مگر ابھی تک یہ ماہی گیری کی بستی نظر آتی ہے، یہاں پر شہری سہولیات کا دور دور تک پتہ نہیں۔ گزشتہ ستر سالوں سے گوادر اور اس کے قرب و جوارمیں رہنے والے باشندوں کے لیے پینے کے پانی کا مسئلہ حل نہ ہو سکا ۔ سرکاری اداروں نے فراڈ کیا اور آکڑہ کور ڈیم بنایا جو پچاس سالوں کے بجائے پندرہ سالوں میں ریت سے بھر گیا اور اس میں پانی جمع کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی ۔ سابق کرپٹ وزراء نے اربوں روپے کی لاگت سے کھارے پانی کو میٹھا بنانے کے دو پلانٹ لگائے جہاں سے لوگوں کو پینے کے لئے ایک گیلن پانی نصیب نہیں ہوا ۔ یہ بات دور کی ہوگی کہ ان پلانٹس سے بندر گاہ ‘ صنعتی علاقے اورکمرشل علاقوں کو پانی فراہم کیا جائے ۔ سب سے بڑھ کر گوادر اوراس کی بندر گاہ پر 2006ء کے بعد ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا ۔اس سے مقصد صاف طورپر واضح ہوجاتا ہے کہ گوادر بندر گاہ کی تعمیر نہیں کرنی اور نہ ہی اس کو مکمل کرنا ہے کیونکہ اس سے فائدہ افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک اور بلوچستان کو ہوگا، پاکستان کے دیگر علاقے اور لوگ اس سے شاید مستفید نہ ہوسکیں۔ اسی وجہ سے گوادر کی بندر گاہ پر مزید کام روک دیا گیا۔اب لگتا یوں ہے کہ نہ سڑک کے ذریعے اس کو ملک کے دیگر خطوں سے ملانا ہے اور نہ ہی پاکستانی نظام سے منسلک کرنا ہے ۔ ستر سالوں بعد بھی گوادر کو پانی اور بجلی نصیب نہیں تو یہ سنکیانگ یا گوادر ‘ کاشغر روٹ کو کس طرح مکمل کرے گا۔ یہ تمام باتیں لوگوں کو تسلی دینے کے لئے ہیں کہ عنقریب پاکستان میں عوام کی قسمت گوادر تبدیل کرے گا۔ اس کے برعکس ایران نے ایرانی بلوچستان یا ایرانی مکران میں چاہ بہار کی بندر گاہ کو ترقی دی ہے ۔ آج بھی وہ جنوب اور جنوب مشرقی ایران کی تمام ضروریات پوری کررہا ہے ۔ چاہ بہار بندر گاہ پر پانی اور بجلی یا وسیع تر بنیادی ڈھانچہ کی موجودگی میں ترقی یافتہ ممالک بڑی بڑی صنعتیں قائم کررہی ہیں جہاں پر لاکھوں لوگ روزگار حاصل کریں گے۔ اس میں بڑے بڑے پٹروکیمیکل پلانٹ ‘ موٹر سازی ‘ اسٹیل ملز لگائے جارہے ہیں جس میں لاکھوں افراد کو ملازمتیں ملیں گی ۔ امریکا کی وارننگ کے باوجود بھارت ‘ جاپان ‘ جنوبی کوریا اور اکثر یورپی ممالک چاہ بہار میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری میں بے صبری کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ جاپانی وفد نے کمال کردیا، جاپانی سفیر کی موجودگی میں ایرانی حکام نے کمال کردیااور خصوصاً چاہ بہار آزاد معاشی زون میں پہلے دن ہی مفاہمت کی یادداشتوں پر نہ صرف دستخط کر لیے بلکہ اسٹیل ملز کے لئے زمین کی خریداری کا سودا پہلے دن ہی کردیا ۔ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے اتنی بے صبری یا جلد بازی کس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پورے خطے میں ایک معاشی تبدیلی اور انقلاب آنے والا ہے جو صرف گوادر سے 72کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔ بھارت چاہ بہار میں اپنا کنٹینر ٹرمینل تعمیر کررہا ہے۔ سڑک اور شاہراہیں چاہ بہار کو افغانستان کے پانچ دور دراز خطوں سے ملا چکی ہیں ۔ اگلے سال سے افغانستان چاہ بہار کے ذریعے دنیا سے تجارت شروع کردے گا۔ بھارت ‘ چین اور ایران مل کر چاہ بہار کی بندر گاہ کو کاشغر سنکیانگ سے ملائیں گے ۔ایران ریلوے لائن کو افغانستان کی سرحدیعنی افغانی بلوچستان کے سرحد تک پہنچائے گا اور افغانستان کے اندر ریلوے نظام کی تعمیر میں افغانستان کی امداد کرے گا جبکہ پورے ریگستانی علاقے سنکیانگ سے تاجکستان تک چین ریلوے کا نظام قائم کرے گا۔ اس طرح چین وسط ایشیاء سے تجارت کے لئے ایران کا راستہ استعمال کرے گا۔ جہاں تک گوادرکا تعلق ہے ، کسی کو یہ نہیں معلوم کہ گوادر کی بندر گاہ کو کس مقام سے پاکستانی ریل اور سڑک کے نظام سے منسلک کیا جائے گا۔ شاید منصوبہ سازوں کو بھی ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ یہ کام بھی انہوں نے کرنا ہے ۔ بہر حال پورے خطے میں ایک معاشی انقلاب آتا نظر آرہا ہے اور اب اس کا مرکز پاکستانی بلوچستان یا گوادر نہیں ہوگا، یہ انقلاب ایرانی بلوچستان بلکہ چاہ بہار اور اسی کے قریبی دوسرے ایرانی بندر گاہیں ہوں گی ۔ انتقال آبادی کا رخ اب گوادر نہیں چاہ بہار ہوگا۔ دنیابھر کے سرمایہ کاروں کی توجہ ایرانی بلوچستان پر ہے ،گوادر کوئی نہیں آرہا ۔ ابھی تو گوادر ائیر پورٹ تعمیر کی منصوبہ بندی ہورہی ہے بلکہ گزشتہ پندرہ سالوں سے ہورہی ہے اور خدا جانے اگلے کتنے سالوں تک ہوتی رہے۔ گوادر کے اطراف سڑکوں کا جال نہیں ہے ۔