انبار صوبے کے دارالحکومت رمادی پرتنظیم دولت اسلامیہ کے قبضے کے بعد یقینی طورپر عراق تین ملکوں میں تقسیم ہوچکا ہے ۔ انبار ،موصل عراق اور شام کے وسیع اور عریض علاقوں پر اسلامی ریاست کا قبضہ مکمل ہوگیا ہے ۔ اس سے پہلے قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ اسلامی شدت پسند بغداد اور کربلا کا رخ کریں گے اور ان دونوں شہروں کو بھی تاراج کرنے کی کوشش کریں گے اورعنقریب اس سلسلے میں ایک بڑا حملہ یقینی نظر آتا تھا ۔ مگر حالیہ دنوں کی آمدہ اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی شدت پسندوں نے اپنا یہ ارادہ ترک کردیا ہے اور رمادی اور انبار صوبے کے دوسرے علاقوں پر اپنی گرفت کو زیادہ مضبوط بنا رہے ہیں ۔ انہوں نے یہ ارادہ ترک کردیا ہے کہ وہ کربلا اور بغداد پر حملہ کریں گے۔ دوسری جانب امریکی مسلح افواج اور وزارت دفاع کے اہلکار عراقی افواج کو اس شکست کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں ۔ اور ان کا دعویٰ ہے کہ عراقی مسلح افواج زیادہ بے جگری سے جنگ نہ لڑ سکے جس کی وجہ سے ان کو عبرتناک شکست ہوئی ۔ ابتداء سے ہی عراقی حکومت نے صرف اور صرف سنی افواج یا سپاہیوں پر مشتمل فوج کو رمادی روانہ کیا تھا ان کو خطرات لاحق تھے کہ اگر شیعہ ملیشیاء اور افواج کو انبار کی جنگ میں دھکیل دیا گیا تو اس کا رخ تبدیل ہوجائے گا۔ زیادہ امکان یہ تھا کہ یہ فرقہ وارانہ جنگ کی شکل اختیار کر سکتا ہے ۔ اس لیے شیعہ ملیشیاء اور ایران سے رضا کاروں کو انبارکے صوبائی جنگ میں نہیں دھکیلا گیا ۔ اور صرف سنی افواج پر قناعت کی گئی یہ عراقی افواج بے جگری سے نہ لڑ سکے ، نہ ہی ان کو بڑے پیمانے پر ہوائی فوج کی کمک حاصل تھی ۔ فضاء سے اسلامی شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ عراقی افواج اپنا جدید ترین اسلحہ بھی اس جنگ میں استعمال میں نہ لا سکے ۔ رمادی پر داعش یا اسلامی شدت پسندوں کے قبضے کے بعد عراق او رشام کے طول و عرض پر اسلامی شدت پسندوں کا مکمل قبضہ ہوگیا ہے ترکی نے شام کے اندر داعش جنگجوؤں کی حمایت کی بلکہ ان کواسلحہ اور گولہ باردو بھی پہنچا یا تاکہ اس کی حکومت کو شکست کا سامنا کرنا پڑے ۔ یہی کچھ ہوا اور سنی قبائل کے وسیع علاقوں اور وسائل پر اسلامی شدت پسندوں کا قبضہ مکمل ہوگیا ہے ۔ اس کی ابتداء موصل سے ہوئی ۔ عراقی افواج کو موصل میں بھی اسی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ عراقی افواج نے اپنا اسلحہ اور گولہ بارود اسلامی شدت پسندوں کے نہ صرف سپرد کردیا تھا بلکہ ان کے ہاتھوں جنگی قیدی بھی بن گئے تھے۔ جنگ کے ابتدائی دنوں سے موصل پر اسلامی شدت پسندوں کا بھر پور قبضہ ہوا تھا اور اب اس قبضہ کو سالوں گزرنے کے بعد مستحکم کیا جارہا ہے ۔ البتہ کرد قوم پرست اس کی مزاحمت کررہے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ موصل کردستان کا حصہ ہے۔ صدام حسین نے اپنی حکومت کے دوران کرد قبائل کا قتل عام کیا تھا ۔ زہریلی گیس استعمال کرکے بڑے پیمانے پر کرد وں کی نسل کشی کی گئی اور بعد میں دوسرے عراقیوں اور عربوں کو لا کر آباد کیا گیا اور موصل میں کردوں کو اقلیت میں تبدیل کردیا گیا۔آج موصل عراق کا تیل پیدا کرنے والا خطہ اسلامی شدت پسندوں کے قبضے میں ہے داعش کے لوگ تیل ترکی کو فروخت کررہے ہیں اور اربوں ڈالر کما رہے ہیں ۔ چنانچہ عراق کسی بھی لحاظ سے ایک متحدہ ملک نہیں رہا ۔ ایک طرف کردوں کا ایک خود مختار خطہ ہے جو کم و بیش ایک آزاد ریاست کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ۔ کردستان دوسرے ممالک سے برابری کی بنیاد پر معاہدے کررہا ہے ۔ تجارت کررہا ہے ۔ تیل کا سب سے بڑا خریدار ترکی ہے ۔ یہ دولت عراق کی مرکزی حکومت کو نہیں مل رہی ہے ۔ دوسری جانب اسلامی شدت پسند باقی ماندہ تیل پیدا کرنے والے علاقوں پر قابض ہیں اور وہ بھی سالانہ اربوں ڈالر تیل کی دولت سے کما رہے ہیں یہ دولت دمشق اور بغداد کو نہیں مل رہی ہے ۔ اس طرح سے عراق پہلے ہی تین ممالک میں تقسیم ہوچکا ہے ۔ بغداد اور اس کے ملحقہ شیعہ آبادی والے علاقے عراق اور بغدادکے ماتحت ہیں ۔ کردوں کی آزاد ریاست حقیقی معنوں میں موجود ہے اور اب اسلامی جنگجو شام اور عراقی کے سنی قبائل والے علاقوں پر فوجی قبضہ مستحکم کررہے ہیں اور دنیا کی طاقتیں اس قبضہ کو ختم کرنے میں دل چسپی نہیں رکھتے ۔ تہران اور بغداد دونوں مل کر شیعہ علاقوں کی حفاظت کریں گے۔
عراق تین ملکوں میں تقسیم ہوگیا
وقتِ اشاعت : May 27 – 2015