وفاقی اورصوبائی حکومتیں ان دنوں بجٹ کی تیاری میں مصروف ہیں اور اپنی ترجیحات طے کررہی ہیں کہ ترقیاتی بجٹ میں کس شعبہ کو اولیت دی جائے ۔ پاکستان اور اس کے تمام صوبوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کا اسی فیصد سے زائد بجٹ قرضوں کی واپسی ‘ سود کی ادائیگی ‘ تنخواہوں اور الاؤنسز کی ادائیگی بلکہ غیر ترقیاتی اخراجات خصوصاً انتظامی اخراجات کی مد میں چلا جاتا ہے۔اور خصوصاً انتظامی اخراجات میں بے پناہ اضافے کے بعد ترقیاتی کاموں کے لئے کچھ نہیں بچتا ۔ مقتدر قوتیں اپنے بجٹ کو ہاتھ لگانے نہیں دیتے ، کسی کی مجال ہے کہ ان کے بجٹ کو ہاتھ لگانے کی کوشش کرے اور تو اور کوئی ان پر زبانی کلامی تنقید بھی نہیں کرسکتا ۔چونکہ ہر حکمران یا حکمران طبقے کے ہر شخص کو اپنے ذاتی مفادات ملک اور قوم کے مفادات سے زیادہ عزیز ہیں اور ان کا عوام کی فلاح و بہبود سے کوئی تعلق نہیں بنتا ۔ لہذا وزیراعظم اور دوسرے حکمرانوں کی اس سلسلے میں مشاورت صرف رسمی ہیں اور عوام الناس کے دکھاوے کیلئے ہیں۔ اس پورے نظام میں سب سے زیادہ نظر انداز خطہ یا لوگ بلوچستان اور بلوچ عوام ہیں ان کے جائز‘ آئینی اور قانونی مفادات کا نگہبان کوئی نہیں ہے ۔ وفاق کی کوشش ہے کہ بلوچستان کو کم سے کم وسائل دئیے جائیں کیونکہ اس کی آواز وفاق میں نہیں ہے ۔ بلوچستان کے پارلیمان میں نمائندوں کو بھی ملکی اور عوامی معاشی معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ ایک بار ہم نے وزیراعلیٰ بلوچستان کو بتایا کہ بلوچستان میں ترقیاتی اخراجات کم رکھی گئیں ہیں اس کے بعد اس مسلم لیگی وزیراعلیٰ نے اپنے مسلم لیگی وزیراعظم اور وفاقی حکومت سے احتجاج کیا کہ بلوچستان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔ ویسے بھی ہر سال بلوچستان کو بجٹ میں جو دیا جاتا ہے اس کا نصف حصہ بھی خرچ نہیں کیا جاتا ۔ آدھے سے زیادہ رقم کئی دہائیوں تک واپس لی گئی یا بلوچستان کو ادا نہیں کی گئی ۔ جہاں تک صوبے کی بات ہے یا یہاں پرجو صوبائی حکومتیں رہی ہیں انہوں نے بھی اسی فیصد سے زائد رقم تنخواہوں ‘ الاؤنس اور غیر ترقیاتی اخراجات کے لئے رکھے ہیں ۔ گزشتہ چند ایک سالوں سے بلوچستان کا صوبائی ترقیاتی بجٹ کا حجم تیس ارب سے زیادہ رہا ہے خصوصاً فنانس کمیشن کے ایوارڈ کے بعد ۔ یہ ساری رقم صرف اور صرف صوبائی اسمبلی کے اراکین کو سالانہ ترقیاتی پروگرام کے نام پر دی جاتی ہے ۔ کوئی بھی ماہر معاشیات یا معاشیات کا طالب علم یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ اس کا اثر معاشی حالات پر پڑا ہے یا معاشی حالات میں کسی قسم کی تبدیلی آئی ہے۔ اس کے دو معیار ہیں جو پرکھے جاتے ہیں ایک یہ کہ ریاست یا صوبائی حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے یا لوگوں کو ان اخراجات سے روزگار مہیا ہوا ہے یا نہیں ۔ ظاہر ہے کہ گزشتہ 45سالوں سے صوبائی ترقیاتی پروگرام کا کوئی معاشی اثر نہیں ہوا ہے ۔ البتہ صوبائی اسمبلی کے اراکین ‘ سابق وزراء اور سابق وزرائے اعلیٰ ذاتی طورپر امیر تر ہوگئے ہیں عوام کی فلاح و بہبود کے دعوے رسمی ہیں ۔ بلوچستان میں جتنے بھی بڑے منصوبے ہیں وہ وفاق نے دہائیوں میں مکمل کیے ہیں اس میں صوبائی حکومت اور صوبائی ترقیاتی پروگرام کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ دوسرے الفاظ میں 45سالوں کے تمام اخراجات مکمل طورپر ضائع ہوئے ہیں ۔ شاید ایک آدھ اسکیم انسانی نظروں سے اوجھل ہوگئی ہو البتہ پورے کا پورا ترقیاتی بجٹ صرف 65اراکین اسمبلی میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ اس تقسیم کا معاشی جواز نہیں ہے یہ سلسلہ فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد شروع کیا ۔ ہر ایم این اے اور ایم پی اے کے لئے رقم مختص کی گئی کہ وہ مسلم لیگ یا جونیجو لیگ میں شامل ہوجائے اور ملک میں آمرانہ نظام کو مضبوط بنائیں ۔ دوسرے الفاظ میں عوام کے منتخب نمائندے آمریت کی حمایت کریں اس کے عویض ان کو ترقیاتی رقوم میں خرد برد کی مکمل طورپر اجازت دی گئی۔ حال ہی کی بات ہے کہ وزیراعظم نے 15ارب ڈالر روپے کا ترقیاتی فنڈ دینے کا اعلان کیا ۔ عوام کے منتخب نمائندوں سے یہ مطالبہ فوراً سامنے آگیا کہ اس کو 65اراکین صوبائی اسمبلی میں تقسیم کیاجائے ۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ اس رقم کا کیابنا ۔ اس سے متعلق ایک مصدقہ اعلان کے ہم منتظررہیں گے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ بلوچستان میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کو فوری طورپر بند کیا جائے ۔ ایم پی اے حضرات کو کوئی فنڈ نہ دئیے جائیں ۔ یہ ترقیاتی رقم بڑے بڑے معاشی منصوبوں پر خرچ کیے جائیں بلکہ طویل المدتی منصوبہ بندی کی جائے اور اراکین اسمبلی سے کہا جائے کہ وہ صرف اور صرف قانون سازی کریں اور روپے کا لین دین عوامی مفاد میں بند کردیں تاکہ بلوچستان اور اس کے غریب عوام شاہراہ ترقی پر گامزن ہوں ۔ سیاست کو تجارت بنانے سے روکنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ اراکین اسمبلی صرف قانون سازی کریں معاشی ترقی کو معاشی منصوبہ سازوں پر چھوڑ دیں یا مستقبل میں احتساب کے لئے تیار رہیں ۔