|

وقتِ اشاعت :   May 30 – 2015

گوادر پورٹ پر پہلے مرحلے کاکام چینیوں نے مقررہ وقت سے چھ ماہ قبل مکمل کرلیا تھا اور اس طرح انہوں نے اپنے اخراجات میں زبردست بچت کی مگر اس کے بعد گوادر کی بندر گاہ پر کام بند ہوگیاجو آج تک بند ہے ۔ بعض مبصرین کا یہ خیال ہے کہ پاکستانی مقتدرہ اس بات کے حق میں ابتداء سے نہیں تھا گوادر پر بندر گاہ بنایا جائے اوراس کے ذریعے بھارت ‘ امریکا ‘ یورپی ممالک کو راہداری دی جائے کہ وہ گوادر یا مکران ساحل کے ذریعے افغانستان اور وسط ایشائی ممالک سے تجارت کرسکیں ان کے توانائی کے وسائل کو بین الاقوامی معیشت کی توسیع اور ترقی کے کام میں لایا جائے ۔چنانچہ جب معاملہ کراچی کے دوسرے بندر گاہ یعنی پورٹ قسم اور گوادر کا آیا تو 3000طویل مکران کے ساحل کو نظر انداز کرکے پورٹ قاسم تعمیر کیا گیا ۔ دوسری بار جب ایک اور موقع آیا تو بعض متعصب حکمرانوں نے کیٹی بندر پر پورٹ تعمیر کرنے کو کہا ۔ جنرل مشرف صدر اور سپہ سالار پاکستان کا حکم تھا کہ گوادر کی بندر گاہ ‘ ساحلی شاہراہ اور میرانی ڈیم کو تعمیر کیاجائے اور سندھک کے سونے اور تانبے کے پروجیکٹ پر کام شروع کیا جائے ۔ یہ حکم نامے انہوں نے کیوں جاری کیے اور مقتدرہ کی مرضی کے خلاف کیوں جاری کیے اس کی وہ خود وضاحت دیں گے۔ اس پر ہم کو کچھ نہیں معلوم نہ ہی کسی اہم شخصیت نے اس کی وضاحت کی ۔ سب سے دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے وزیر پیٹرولیم اور قدرتی وسائل چوہدری نثار کے ساتھ سندھک کا دورہ کیااور اس منصوبے پر جاری کام بند کرنے کا اعلان کردیا ۔ اس سے ان باتوں کو تقویت ملی کہ مقتدرہ بلوچستان کی ترقی کا مخالف ہے اس کے قدرتی وسائل کو ملک کے عوام کے فائدے کے لئے استعمال میں نہیں لانا چاہتا ۔ کیوں ؟ اس کا صرف مقتدرہ کے لوگوں کے پاس جواب ہوگا۔ ہم اخبار نویسوں کے پاس نہیں ہے۔ البتہ گوادر آج اسی مقام پر ہے جو وہ 2006ء میں تھا بلکہ صورت حال میں بد تری آئی ہے گوادر کے قرب و جوار میں پینے کے پانی کے ذخائر ختم ہوگئے ،بجلی نہیں ،بندر گاہ میں مزید سہولیات فراہم نہیں کی گئیں ۔ البتہ یہ ڈرامہ آئے دن رچایا گیا کہ حکومتی کارگو کو گوادر پورٹ پر اتارا گیا اور بعد میں اس کو ٹرکوں کے ذریعے کراچی اور ملک کے دوسرے حصوں میں روانہ کیا گیا ۔بہر حال گوادر پورٹ پر نجی اداروں کا مال نہ پہنچا اورنہ ہی اس کی ضرورت محسوس کی گئی ۔ کراچی اور پورٹ قاسم ملکی تمام ضروریات کو پوری کررہا ہے ۔ گوادر پورٹ کے لئے کوئی کام ہی نہیں ہے ۔ گوادر پورٹ کی ضرورت افغانستان اور وسط ایشائی ممالک کو تھی ۔ گوادر پورٹ کو ان ممالک کے ساتھ سڑکوں کے جال اور نزدیک ترین راستوں کے ذریعے نہیں ملایا گیا نہ ہی اس بات کا تصور منصوبہ سازوں کے ذہن میں ہے کہ ریل اور سڑک کہاں سے گزرے گی، کہاں سے اس کو پاکستان کے ریل کے نظام سے منسلک کیا جائے گا؟ تمام منصوبہ ساز اور پلاننگ کمیشن خالی الذہن ہیں ۔ ان کو اس کام میں کوئی دل چسپی نہیں۔ بعض سیاستدان یہ جواب دے رہے ہیں کہ پلاننگ کمیشن کے اہلکار یہ کام کریں گے یہ بڑے لوگوں کا کام نہیں ہے ۔ ابھی ان بڑے لوگوں نے گوادر میں ائیر پورٹ کی تعمیر کا فیصلہ نہیں کیا ۔ائیر پورٹ کی تعمیر 2002ء میں گوادر کی تعمیر کے ساتھ شروع ہوئی تھی اگر حکمرانوں کو گوادر پورٹ سے دل چسپی ہوتی تو ائیر پورٹ تعمیر ہوچکا ہوتا ،گوادر حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ۔ ایک مزید مثال یہ ہے کہ دس سال قبل یورپی ممالک کے ایک کنسشوریم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ گوادر کے قریب اور ساحل مکران پر ایک جہاز سازی کا کارخانہ لگائیں گے اس میں حکومت پاکستان کی سرمایہ کاری کی بالکل ضرورت نہیں ہوگی اس جہاز سازی کی صنعت کے لئے سمندر کے کنارے جو زمین کنسشوریم کو الاٹ کریں گے وہی حکومت پاکستان کا حصہ ہوگا ۔دس سال سے یہ منصوبہ بندی کمیشن کے سرد خانے میں پڑا ہوا ہے ۔ اگر گوادر پورٹ سے دلچسپی ہوتی تو جہاز سازی کی صنعت کے ساتھ اس طرح کا ناروا سلوک نہ ہوتا۔ اب پنجاب اور پختون رہنماؤں کو یہ ثابت کرنا ہے کہ ان کو گوادر کی ضرورت ہے اور چین سے 34ارب ڈالر کی سرمایہ کاری صرف ان دو صوبوں کے لئے نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے گوادر پورٹ کی منصوبے کے مطابق مکمل تعمیر ہے جس کے فوائد پنجاب اور پختون خواہ صوبے کو مل سکیں گے ۔ البتہ ایران نے نہ صرف اصل کام کی ابتداء کی ہے بلکہ اس کو انجام تک پہنچانے کے قریب ہے ۔ بھارت چاہ بہار پر مزید آٹھ کروڑ 50لاکھ ڈالر خرچ کررہا ہے ۔ ایران اور بھارت نے افغانستان میں ضرورت کے مطابق سڑکیں تعمیر کر لی ہیں ۔ غالباً افغانستان اگلے سال سے ایران کی سمندری گزر گاہ استعمال کرنا شروع کرے گا جو گوادر سے صرف72کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔