|

وقتِ اشاعت :   May 31 – 2015

گزشتہ رات نا معلوم مسلح افراد نے دو مسافر بسوں کو کھڈ کوچہ (مستونگ) کے نزدیک اسلحہ کے زور پر روک لیا اور تیس سے زائد مسافروں کو بسوں سے اتار اور ان کو پہاڑوں کی طرف لے گئے جہاں پر ان کو ایک ایک کرکے شناخت کیا گیا اور بعد میں قتل کردیا گیا ۔ واقعہ کے گھنٹوں بعد بھی کسی گروہ نے اس قتل عام کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور نہ ہی کسی نے ان کے قتل کی وجوہات بیان کیں ۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق بسوں کو روکنے والے مسلح افراد سرکاری وردی پہنے ہوئے تھے لیکن جب مغوی مسافروں کو پہاڑوں کی طرف لے جایا گیا تھا ان کی تعداد کئیں زیادہ تھی وہ ایک بہت بڑا مسلح لشکر تھا ۔ وہاں پر ایک ایک کرکے اور شناخت کرکے مغویوں کے سروں پر گولیاں ماری گئیں تاکہ ان کا یقینی موت واقع ہو ۔ عینی شواہدین کے مطابق ان کو بعد میں سینوں میں بھی گولیاں ماری گئیں ابھی تک پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار ہے جس سے اس بات کی سرکاری تصدیق ہوسکتی ہے کہ ان کی اموات کیسے واقع ہوئیں اور ملزمان نے کون سے اسلحہ کا استعمال کیا۔ اس قتل عام کے بعد پورے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے لوگ اس قتل عام کے حوالے سے سواگوار ہیں ۔ وزیراعلیٰ نے پورے صوبے میں تین دن کے سوگ کا اعلان کیا اورکہا کہ ملزمان کو گرفتار کیا جائے گا اور انکو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا ۔ وزیراعلیٰ نے یہ بھی اعلان کیا کہ اس مکروہ سازش میں شامل عناصر کو ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا۔انہوں نے معصوم اور غیر مسلح انسانوں کی بے رحمانہ قتل عام کی شدید مذمت کی اور صوبائی انتظامیہ کو فوری ہدایات جاری کیں کہ ہر صورت میں ملزمان کو گرفتار کیا جائے، ان کا پیچھا کیاجائے تاکہ ان کو جلد سے جلد انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیاجائے ۔ موجودہ صورت حال میں معصوم لوگوں کا قتل عام ایک عظیم گناہ ہے ۔ وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے یہ الزام لگایا کہ یہ بھارت کی جاسوسی ادارے کے کارندے اورایجنٹ ہی ہیں جو بلوچستان کی صورت حال کو درہم برہم کرنے میں مستعد نظر آتے ہیں ’ انکا یہ خیال تھا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی پرچم لہرانے کے واقعے کے بعد بلوچستان میں یہ جوابی کارروائی کی ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ سیکورٹی افواج ملزمان کو تلاش کرنے کے لیے سرچ آپریشن کررہے ہیں اور تمام علاقے کو اس مقصد کے لئے گھیرے میں لیا ہوا ہے ۔ بہر حال یہ واقعہ بلوچ پختون تعلقات کو نقصان پہنچانے کی بڑی سازش ہے ۔ بلوچ ‘ پختون تعلقات سینکڑوں سالوں سے نہ صرف موجود ہیں بلکہ مضبوط بھی ہیں ایک آدھ واقعات ان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔ دونوں بردار قومیں نہ صرف پڑوسی ہیں بلکہ ان کے تعلقات بھی اتنے ہی گہرے ہیں ۔تاریخی طورپر دشمن طاقتیں ان تعلقات کو نقصان نہیں پہنچا سکے ۔ دو برادر اقوام کی سب سے بڑی خدمت یہ ہوگی کہ ملک بھرمیں امن قائم کیا جائے ۔ بھائی چارہ کی فضاء کو برقرار رکھا جائے بلکہ برادرانہ تعلقات کو زیادہ مضبوط بنایا ۔ دونوں بردار اقوام مشترکہ قومی جدوجہد سے اپنے حقوق دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں ۔ ایک دوسرے کی ذاتی مفادات کی خاطر کشمکش سے دونوں برادر اقوام کے جائز اور مشترکہ مفادات کو ہمیشہ خطرات لاحق رہیں گے۔ ہم حکومت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھی متاثرہ خاندانوں کے کفیلوں کی زبردست طریقے سے خدمت کرے گی اور ان کو دل جوئی میں کوئی کمی نہیں کرے گی۔ ساتھ ان لوگوں کو تلاش کرکے سزائیں بھی دیگی جنہوں نے انسانیت کے خلاف یہ جرم کیا ہے ۔