|

وقتِ اشاعت :   June 3 – 2015

یہ ایک بڑی خوش آئند بات ہے کہ ایران اور پاکستان کے افسران نے یہ فیصلہ کر لیا کہ کوئٹہ اور زاہدان کے درمیان کارگوٹرین چلائی جائے ۔ پہلی ٹرین اگلے ماہ سے کوئٹہ سے روانہ ہوگی اور کارگو لے کر زاہدان پہنچے گی ۔ اس عمل سے دونوں ملکوں کے درمیان قانونی تجارت کو فروغ ملے گی اور اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی سرکاری سطح پر ہوگی ۔ کوئٹہ پاکستانی بلوچستان کا دارالخلافہء ہے اور زاہدان ایرانی بلوچستان کا ‘ اس سے قبل دو نوں صوبوں کے درمیان ہفتہ وار مسافر ٹرینیں چلتی تھیں اور ایک دوسرے ملک کے ساتھ تجارت بھی ریل کے ذریعے ہوتی تھی ۔اس زمانے میں آر سی ڈی شاہراہ نہ ہونے کے برابر تھی ۔ نوکنڈی ‘ دالبندین بلکہ پورے چاغی ضلع میں لوگوں کی گاڑیاں اور ٹرین ریت کے طوفان میں اکثر پھنس جاتے تھے اس لئے پورے خطے میں ریل یا اونٹوں پر سفر کیا جاتا تھا ۔گاڑیوں کے ریت کے میدان میں پھنس جانے کا ہمیشہ خطرہ رہتا تھا ۔ چنانچہ ریل کی سفر زیادہ کامیاب تھی گوکہ ریل کی پٹڑی چھوٹی اور قدیم تھی جس پر زیادہ تیز رفتاری سے ٹرین نہیں چلائی جاسکتی تھی ۔ زاہدان ریلوے کا نظام برطانوی استعمار نے اپنی فوجی ضروریات کے پیش نظر تعمیر کیا تھا ۔ برطانوی سلطنت کو افغانستان کی جانب سے ہمیشہ خطرات لاحق رہے اور اس وجہ سے کہ برطانوی افواج کی بڑے پیمانے پر نقل و حرکت اور جنگی سامان کی ترسیل کے لئے زاہدان ریلوے تعمیر کی گئی جو تقریباً 600میل کے لگ بھگ تھی ۔کوئٹہ کو زاہدان کے ساتھ ریل کے ذریعے ملایا گیا ۔ اسی دوران زاہدان (بلوچستان ) اور کرمان کے درمیان ریل کا ایک زبردست اور 500کلو میٹر طویل خلاء موجود تھا یہ خلاء موجودہ ایرانی حکومت نے پر کردیا اور زاہدان اور کرمان کے درمیان ریل کے لنک کے بعد کراچی سے یورپ تک کو ریل کے ذریعے منسلک کردیا گیا ۔ اس کا فائدہ ایران اور ترکی نے اٹھایا پاکستان اور خصوصاً پاکستانی صوبہ بلوچستان کو اس سے جان بوجھ کر محروم رکھا گیا ۔ جو ریل کی پٹٹری انگریز نے کوئٹہ زاہدان کے درمیان بچھائی تھی اس میں بہتری نہیں لائی گئی اس لئے یورپ ‘ ترکی ‘ ایران سے بلوچستان کی جدید ترین ریل سروس بحال نہ ہو سکی یا جان بوجھ کر بحال نہیں کی گئی ۔ آج بھی زاہدان کوئٹہ ریلوے سیکشن دنیا بھر میں پسماندہ ترین ہے ۔ریل کے نظام میں سالانہ چالیس ارب روپے سے زیادہ خرچ ہورہے ہیں ۔ اسکا تعلق مین ریلوے لائن تک محدود ہے ۔ بلوچستان میں ریلوے کیلئے کچھ بھی نہیں کیا گیا خصوصاً زاہدان کوئٹہ ریلوے کو بین الاقوامی معیار کے مطابق تعمیر نہیں کیاجارہا ہے تاکہ پاکستان کو مجموعی طورپر ایران اور ترکی سے تجارت کرنے میں زیادہ فوائد حاصل ہوں اور اسی ریلوے لائن کو زاہدان سے مشہد تک ملانے میں فائدہ ہوگا کہ ترکمانستان اور افغانستان کے بعض خطے خصوصاً ہرات ساحل مکران کے ذریعے دنیا بھر کے ملکوں کے ساتھ تجارت کرتے رہیں گے۔ بنیادی نکتہ زاہدان کوئٹہ ریلوے نظام کو نہ صرف بہتر بنانا اور ان کو جدید خطوط پر از سر نو تعمیر کرنا ہے تاکہ پاکستان ریل کے راستے دنیا بھر سے تجارت کرے خصوصاً ایران اور ترکی سے ۔اس سلسلے میں مقامی ریلوے حکام کے درمیان کارگو ٹرین چلانے کا فیصلہ خوش آئند ہے اور لوگوں کو یہ امید رکھنی چائیے کہ زاہدان اور کوئٹہ کے درمیان با قاعدہ ریل سروس شروع کی جائے گی تاکہ لوگوں کو زیادہ آمد و رفت کی آسانی ہو بلکہ علاقائی تجارت کو بھی ترقی ملے اور اس کا فائدہ دونوں ملکوں کے عوام حاصل کریں ۔ ضرورت اس بات کی ہے بلوچستان کے دونوں خطوں کے درمیان اقتصادی تعاون کو اتنا بڑھایا جائے دونوں کی معیشت ایک دوسرے پر نہ صرف انحصار کریں بلکہ دونوں ایک دوسرے میں ضم ہوجائیں اور معاشی ترقی کے فوائد مشترکہ طورپر حاصل کریں ایران اور پاکستانی بلوچستان کے ساتھ بین الاقوامی سرحد 900کلو میٹر طویل ہے جس سے ہر خطے کے درمیان تعاون کو بڑھانے کے وسیع امکانات ہیں جس کے فوائد دونوں ملکوں کے عوام کو ملیں گے۔