|

وقتِ اشاعت :   June 3 – 2015

وفاقی حکومت نے اس بار اس تجویز کی منظوری دی جس میں کہا گیا تھا کہ پیٹرول کی قیمت میں ساڑھے تین روپے کا اضافہ کیاجائے ۔ یہ اضافہ معاشی لحاظ سے ایک غلط وقت میں کیا گیا جب حکومت اس بات کے لئے کوشاں تھی کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالے اور معاشی سرگرمیوں میں زیادہ تیز رفتاری سے اضافہ کرے تاکہ معیشت اپنے اصلی مقام پر دوبارہ واپس آجائے ۔ اس نقطہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسٹیٹ بنک نے شرح سود میں زبردست کمی کی اور اس کو سات فیصد پر محدود کردیا تاکہ معیشت تیزی کے ساتھ ترقی کرے ،سرمایہ کاری پر اخراجات کم سے کم ہوں اور سرمایہ کار وں کواس بات کی زبردست ترغیب ملے کہ وہ مختلف شعبوں سرمایہ کاری کریں اورمعیشت کی بحالی میں ممد و معاون ثابت ہوں ۔ اسی طرح سے بین الاقوامی مالیاتی ادارہ نے بھی پاکستانی معیشت کے ساتھ یہی رویہ سامنے رکھا ، مقصد یہ تھا اور ہے کہ معیشت کی جلد از جلد بحالی میں مدد دی جائے۔ یہی طرز عمل اور پالیسی دوسرے بین الاقوامی فنانس اداروں نے پاکستان کے متعلق اپنائی ۔ دنیابھرمیں پاکستان کی معیشت کی کمزوری پر لوگ پریشان ہیں ملک کے اندر منشی صاحبان پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں او ر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں۔ وہ اس خوش فہمی میں رہنا چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت کی آمدنی میں اتنا اضافہ ہوا یا اخراجات کم ہوگئے۔ دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا رحجان ا بھی بھی بر قرار رہے، تیل کی پیداوار میں کوئی کمی نہیں آئی، اوپیک ممالک اپنی پیداوار میں مسلسل اضافہ کررہے ہیں جس کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں کسی قسم کے اضافے کا امکان مستقبل قریب میں نہیں ہے ۔ بلکہ دنیا کے ممالک اس بات پر بضد ہیں کہ تیل کی قیمت کو کم سے کم رکھ کر ایران کی معیشت کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچائیں۔ سیاسی وجوہات کی بناء پر ایران کی مشکلات میں اضافہ کریں تاکہ وہ شیعہ انقلاب دوسرے ممالک خصوصاً یمن میں بر آمد کرنا بند کردے۔ دوسری جانب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے زبردست اثرات مختلف شعبوں میں نظر آئیں گی جس کو معاشی زبان میں Multiplier Effects کہا جاتا ہے جو انتہائی خطر ناک ہے اور حکومت کے ان تمام منصوبوں کو جس کا مقصد پاکستانی معیشت کی بحالی ہے نقصان پہنچے گا۔ سب سے پہلا اثر یہ ہوگا جو ملکی معیشت پر ایک بوجھ بن جائے گا پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کا مطلب یہ لیا جائے کہ ملک میں افراط زر میں بھی اضافہ ہوگااور ضروری اشیاء کی ترسیل کے اخراجات میں بھی اضافہ ہوگا ۔ چنانچہ حکومت پر یہ لازم ہے کہ وہ یہ اضافہ واپس لے اور پرانی تیل کی قیمتیں بحال کرے۔ بجٹ سے چند دن پہلے پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کا کوئی سیاسی اور جمہوری جواز نہیں ہے ۔ وفاقی بجٹ وفاقی حکومت کی آمد ن اور اخراجات کا میزانیہ ہے ۔ پیٹرولیم کی مصنوعات بھی اس میزانیہ کے زمرے میں آتے ہیں اس سے باہر نہیں۔ یہ اضافہ مسلم لیگ اورنواز شریف کی انتہائی آمرانہ سوچ کی عکاسی کرتا ہے اراکین قومی اسمبلی ایوان کے اندر اس پر بحث نہ کریں اور نہ ہی اس اضافے کو وفاقی بجٹ کا حصہ بنائیں ۔ اراکین اسمبلی سے یہ جائز توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ حکومت کے اس فیصلے کو ویٹو کریں گے اور حکومت کو حدف کا نشانہ بنائیں گے کہ معاشی اور مالی معاملات کے فیصلے ایوان کے اندر کیے جائیں ’ ایوان کے باہر نہیں اور عملاً یہ ثابت کریں کہ یہ منتخب جمہوری حکومت ہے اور جمہوری اصولوں پر یقین رکھتی ہے ۔ یہاں منشی صاحبان کا راج نہیں ہے بہر حال پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ معاشی مشکلات کا سبب بن جائے گا۔ اس سے حکومت کو نقصانات زیادہ اور فوائد کم حاصل ہوں گے۔