کوئٹہ شہر کے وسط میں اور میزان چوک پر ہزارہ برادری کے پانچ افراد کو قتل کردیا گیا مسلح افراد نے دکانوں کے اندر بیٹھے ہوئے دکانداروں پر انتہائی قریب سے فائرنگ کی جس سے چھ افراد زخمی ہوگئے۔ پانچ افراد موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔ یہ مسلح افراد موٹر سائیکلوں پر آئے تھے ،دکانوں کے سامنے کھڑے ہوکر ہزارہ برادری کے تاجروں اور دکانداروں کو نشانہ بنایا ۔ابھی تک ان کے قتل عام کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی لیکن یہ بات مصدقہ ہے کہ اس قتل عام کا تعلق فرقہ وارانہ دہشت گردی سے ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ہزارہ برادری کو ٹارگٹ بنایا جارہا ہے جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ ان قاتلوں میں ایک آدھ ہی پولیس مقابلوں میں ہلاک ہوچکے ہیں باقی تمام دہشت گرد ابھی تک محفوظ ہیں۔ ان کے خلاف بڑے بڑے احتجاج کے بعد بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ یہاں تک صوبائی حکومت تک معطل کردی گئی مگر ایک بھی دہشت گرد انصاف کے کٹہرے میں کھڑا نہیں ہوا اور نہ ہی اس قتل عام پر کوئی قدغن لگی۔ ابھی تک دہشت گرد آزاد ہیں اور اپنی مرضی سے جب چاہتے ہیں حملہ آور آتے ہیں اور کئی انسانی جانیں لے لیتے ہیں۔ پوری کی پوری بلوچستان کی سول سوسائٹی تمام سیاسی جماعتیں اور سماجی حلقے ان واقعات کی بھرپور مذمت کرتے رہتے ہیں مگر یہ واقعات رکنے کا نام نہیں لیتے۔ نہ ہی قاتلوں کو عوامی رائے عامہ کی پرواہ ہے۔ ظاہر ہے معصوم انسانوں کا قتل وہی شخص یا گروہ کرسکتا ہے جس کو پشت پناہی حاصل ہو، عام آدمی جس کی پشت پر کوئی نہ ہو وہ ایک انسان تو دور کی بات، ایک جانور تک نہیں مارسکتا۔ اس لئے یہ ریاست اور اس کے حکمرانوں کی آئینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ان خونخوار ہاتھوں کو تلاش کرے جنہوں نے ہزاروں پاکستانی شہریوں کی جانیں لیں اور ابھی تک دندناتے پھرتے ہیں اور موقع ملتے ہی دوسری وارداتیں کرتے رہتے ہیں۔ ہزارہ برادری کو ہی کیوں ٹارگٹ بنایا جارہا ہے۔ اگر وہ شیعہ ہیں تو دوسری زبانیں بولنے والے شیعہ دوسرے صوبوں میں رہتے ہیں، ان کو اس بے رحمی سے نشانہ نہیں بنایا جاتا جو سلوک ہزارہ برادری کے ساتھ ہوتا آرہا ہے۔ حکومت اس بات کی تفتیش کرے کہ آیا یہ قتل عام سعودی عرب اور ایران کے درمیان پراکسی وار کا حصہ تو نہیں ۔ان معلومات تک رسائی پاکستان کے شہریوں کا قانونی حق ہے کہ ان کو یہ معلوم ہو کہ ان کے ملک کو بیرونی طاقتوں نے کسی بھی وجہ سے پراکسی وار کا مرکز بنادیا ہے۔ ان معلومات کے بعد ہی عوام یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ ان کو اور ان کی حکومت کو کیا کرنا چاہئے۔ اور اپنے ملک کے شہریوں کی حفاظت کرنی چاہئے۔ ان سے سفارتی اور دوسرے تعلقات برقرار رکھے جائیں اگر ایران اس میں کسی طرح سے ملوث ہے تو بھی عوام کو یہ معلومات دی جائیں۔ ایران ہمارا پڑوسی ہے اس لئے اس سے متعلق معلومات لوگوں کو دی جائیں۔ اگر تحقیقات سے یہ ثابت ہوگیا کہ ایران ہمارے ملک کے معاملات میں مداخلت نہیں کررہا تو اس سے زیادہ مضبوط اور قریبی تعلقات قائم ہوسکتے ہیں۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ گروپ کی صورت میں شیعہ زائرین کو جاتے ہوئے یا ایران سے واپس آتے ہوئے دہشت گردی کا بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ ملک کے اندر بعض قوتیں اس کو پسند نہیں کرتیں یا اتنے قریبی روابط ان کو پسند نہیں ہیں اس لئے نامعلوم مسلح افراد ان پر آئے دن حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اس بات کی بھی تحقیقات کی جائے کہ سعودی حکومت اور ساہوکار کن کن مذہبی اداروں اور مدارس کو مالی اور دیگر امداد فراہم کررہے ہیں۔ یہ تحقیقات پاکستان میں پراکسی وار کے تسلسل کا حصہ ہونا چاہئے۔
بلوچستان میں مذہبی دہشت گردی۔۔۔پراکسی وار کا حصہ ہے؟
وقتِ اشاعت : June 9 – 2015