|

وقتِ اشاعت :   June 9 – 2015

کوئٹہ: بلوچستان کے تمام اضلاع کے منتخب بلدیاتی نمائندوں نے خبردار کیاہے کہ اگر حکومت نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 141-Aکے تحت تمام بلدیاتی اداروں کو انتظامی مالی اور قانونی اختیارات تفویض نہ کئے تو بلوچستان کے تمام اضلاع کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین مستعفی ہوجائیں گے۔ جبکہ کوئٹہ کے میئر کلیم اللہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ حکومت نے آنے والے بجٹ میں بھی بلدیاتی نظام کیلئے فنڈزمختص نہیں کئے بلدیاتی اداروں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومت اورچیف سیکرٹری بلوچستان ہیں اگریہ سلسلہ بندنہ ہواتوہم عدالت سے رجوع کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے عہدوں سے مستعفی ہوجائینگے ۔میٹر وپولٹین کارپوریشن کوئٹہ کے میئر ڈاکٹر کلیم اللہ کی قیادت میں پیر کو میٹر پولٹین کارپوریشن کے دفتر سے وزیر اعلیٰ ہاوس تک پیدل مارچ کیا اور وزیر اعلیٰ بلوچستان سے ملاقات کی ۔تفصیلات کے مطابق صوبے بھر کے 32ڈسٹرکٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا اہم اجلا س میئر کوئٹہ ڈاکٹرکلیم اللہ کی صدارت میں منعقد ہوا ۔اجلاس میں ڈپٹی میئر کوئٹہ محمد یونس بلوچ ، ڈسٹرکٹ چیئرمین کوئٹہ ملک نعیم بازئی اور دیگر اضلاع کے منتخب نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میئر کوئٹہ کلیم اللہ کاکڑنے کہا کہ صوبے بھر کے بلدیاتی اداروں کے چیئرمین نائب چیئرمینوں میئر اور ڈپٹی میئر کا مشترکہ اجلاس کوئٹہ میٹر وپولٹین کارپوریشن کوئٹہ میں منعقد ہوا ۔اجلاس میں جس میں 14نکاتی ایجنڈے پر غور کیا گیا اور حکومت سے مطالبہ کی گیا ہے کہ اگر ان کے 14نقاطی ایجنڈے پر غور نہیں کیا گیا اور اس کو منظور نہیں کیا گیا تواحتجاجاً مستعفی ہونے پر غور کیا جاسکتاہے ۔انہوں نے مطالبہ کہا کہ آئین آرٹیکل 141-Aتحت تمام بلدیاتی اداروں کو انتظامی ، مالی اور قانونی اختیارات تفویض کئے جائیں۔ تمام بلدیاتی اداروں کے میئر ڈپٹی میئر اور چیئرمین ، وائس چیئرمین اور ممبران کے اختیارات ، مراعات اور پروٹوکول وغیر ہ کا تعین کیا جائے ۔ لوکل گورنمنٹ گرانٹس کمیشن کا چیئرمین وزیر بلدیات کو مقرر کیا جائے نیز اس میں تمام بلدیاتی اداروں کے نمائندوں کو بھی شمولیت دی جائے اور بلدیاتی اداروں کو دی جانے والی گرانٹ کی تقسیم کا طریہ کار واضح کیاجائے ۔ جی ایس ٹی کی مد میں آخری سہ ماہی میں سیلری ونان سیلری جو 20فیصد کٹو تی کی گئی ہے وہ فوری ریلیز کی جائے ۔ جی ایس ٹی میں نان سیلری کی مد میں بلدیاتی اداروں کی ضرورت کے مطابق بجٹ کو منظور کرنا اور فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔صوبائی بجٹ میں بلدیاتی اداروں کیلئے 33فیصد شیئر ترقیاتی جبکہ 10فیصد شیئر ز غیر ترقیاتی کیلئے مختص کیا جائے۔ بلدیاتی اداروں کے سالانہ بجٹ کو منظور کرنے کا اختیار ڈویژنل کو آرڈ نیشن کمیٹی کی بجائے متعلقہ بلدیاتی ادارے کو تفویض کیا جائے ۔ بلدیاتی اداروں کے باہمی رابطے و تنازعات کے حل کیلئے ڈویژنل کو آرڈنیشن کمیٹی کی بجائے لوکل گورنمنٹ کمیشن تشکیل دی جائے جیسا کہ باقی تین صوبوں میں تشکیل دیا گیا ہے۔بلوچستان میں تمام میونسپل کارپوریشن کے چیئر مین اور وائس چیئرمین کو بلترتیب میئر و ڈپٹی میئر کا درجہ دیا جائے ۔تمام بلدیاتی اداروں میں آفیسر کا تبادلہ وتعینات میئر چیئرمین کی رضامندی کے بغیر نہیں ہونی چائے ۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں تمام بلدیاتی اداروں کے دفاترکیلئے عمارات موجود نہیں ہے وہاں فوری طورپر دفاتر کیلئے عمارات تعمیرکرنے کیلئے فنڈز مہیاکئے جائیں۔ صوبہ میں میونسپل کمیٹی کی آبادی ایک لاکھ سے زاہد ہوا سے میونسپل کارپوریشن کا درجہ دیا جائے ۔ جس یونین کونسل کے متعلقہ تحصیل ہیڈ کوارٹرمیں آبادی 15ہزار سے زائد ہوا سے میونسپل کمیٹی کا درجہ دیا جائے ۔ اجلاس نے اتفاق رائے سے ڈویژنل کی سطح پر عبوری کمیٹی تشکیل دی ہے۔ جو وزیراعلیٰ سے ملاقات کرکے اپنے مسائل سے آگاہ کرے گی۔ میئر کوئٹہ کلیم اللہ کاکڑ نے کہ اکہ کہا کہ دراصل پہلے صوبائی حکومت اور بیور کریٹ کے حکومت تھی جب صوبے میں بلدیاتی انتخابات ہوئے اور نئی قیادت سامنے آئی تو انہوں نے ہمیں برداشت نہیں کیا ابھی تک ہمیں کو اختیارات نہیں دیئے گئے ہیں اصل جمہوریت کی طاقت ہم ہے اگر ہمیں نقصان پہنچا یا گیا تو تمام جمہوریت کو نقصان پہنچے گا ۔اانہوں نے کہاکہ ہمیں روز اول سے ہی دل سے قبول نہیں کیاہمارے ساتھ مہمانوں جیساسلوک روارکھاجارہاہے وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ سے ملاقات کی انہوں نے یقین دلایاکہ بلدیاتی نظام کیلئے 4ارب روپے مختص کئے ہیں جبکہ ہمیں معلوم ہواہے کہ 4ارب روپے کی بجائے صرف ڈیڑھ ارب روپے رہ گئے ہیں جبکہ دوارب روپے خوردبردکی نذرہوگئے ہیں انہوں نے کہاکہ ہمیں کوئٹہ کافادرکہاجاتاہے مگرافسوس کہ ہمیں صرف جھاڑودیکرصفائی پرمامورکیااورصوبے بھرکے ڈسٹرکٹ اورمیونسپل کارپوریشن کے چیئرمین بیروزگارہیں کیونکہ تاحال انہیں اختیارات نہیں دئیے گئے اورنہ ہی ان کے پاس کوئی مراعات ہے انہوں نے کہاکہ جمہوریت کی مضبوطی بھی بلدیاتی نظام سے جڑی ہوئی ہے ستمبر2013میں بلدیاتی نظام کی مضبوطی کیلئے انتخابات ہوئے 2013-14میں بلدیاتی نظام کیلئے کوئی بجٹ مختص نہیں کیاگیاتھا2014-15کے بجٹ میں صرف 7ارب روپے مختص کئے گئے تھے جن میں سے 4ارب روپے تنخواہوں کی مدمیں خرچ ہوگئے ڈیڑھ ارب روپے بچ گئے جن میں سے ایک ارب روپے اپنی مرضی سے خرچ کئے ہیں جن کے اختیارات محکمہ بلدیات سے نہیں بلکہ محکمہ فنانس کے پاس تھے اوران ڈیڑھ ارب روپے میں بھی 20فیصدتنخواہوں پرکٹ لگائی انہوں نے کہاکہ اب ہمارے پاس جون کی تنخواہوں کے پیسے بھی نہیں ہیں انہوں نے کہاکہ ہمارا تعلق حکومت میں شامل جماعتوں سے ہے اوراس سلسلے میں ہم نے اپنی جماعتوں سے بھی رابطہ کیاہے کہ حکومت پالیسی واضح کرے کہ ہمارے پاس کیااختیارات ہیں ہم حکومت سے اس حوالے سے بات کرینگے اگرہمارے مسائل پرسنجیدگی سے غورنہیں کیاگیاتوپھرہم عدالت سے رجوع کرینگے اوراگرپھربھی مسئلہ حل نہ ہواتومستعفی ہوجائینگے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ بلدیاتی نظام میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومت بلوچستان اورچیف سیکرٹری ہیں جواس میں حربوں سے روڑے اٹکارہے ہیں۔