کوئٹہ: بی ایس او آزاد کی مرکزی کال پر آج زاکر مجید بلوچ کی گرفتاری کو چھ سال مکمل ہونے اور ان کی عدم بازیابی کے خلاف کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا۔ مظاہرے میں بڑی تعداد میں بلوچ خواتین و بچوں ، نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور سول سوسائٹی کے ارکان سمیت مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں نے شرکت کی، شرکاء نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈ اُٹھا رکھے تھے، جن میں لاپتہ سیاسی کارکنوں کی عدم بازیابی اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کے خلاف نعرے درج تھے۔ کراچی پریس کلب کے سامنے مظاہرے کے شرکاء نے شدید نعرے بازی کرتے ہوئے لاپتہ سیاسی کارکنوں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر نہتے لوگوں کو اغواء کیا جا رہا ہے،آپریشن کے نام پر عام آبادیوں پر زمینی و فضائی بمباری روز کامعمول بن چکے ہیں۔چائنا کی سرمایہ کاریوں کے اعلان بعد اور ایکشن پلان کی منظوری کے بعد مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کی کاروائیوں میں تیزی لاتے ہوئے آپریشنوں کی آڑ میں اسیران کی لاشیں پھینکی جارہی ہیں۔اور پھر انہیں مضحکہ خیز انداز میں مذاحمت کار ظاہر کرنے کی کوشش کیجا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے روگرداں ہو کر خوف و لالچ کے ذریعے فورسز کی بیانات کو ہی حقیقت ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ حالانکہ کیچ،نوشکی، آواران، پنجگور و مختلف علاقوں سے حالیہ کچھ دنوں سے پھینکی گئی لاشوں سے اہل علاقہ سمیت لاپتہ افراد کے لوحقین کی تنظیم بخوبی جانتی ہے کہ وہ عرصوں سے لاپتہ تھے، لیکن فورسز انہیں شہید کرکے مقابلوں میں مارے جانے والا مزاحمت کار ظاہر کرنے کی کوشش کررہی ہیں تاکہ رائے عامہ کی آنکھوں میں دھول جھونکا جا سکے۔ مظاہرے کے شرکاء میں بی ایس او آزاد کے کارکنان نے پمفلٹ بھی تقسیم کیے جن میں زاکر مجید بلوچ سمیت دیگر لاپتہ افراد کے حوالے معلومات درج تھیں۔ اس کے علاوہ بی ایس او آزاد کی طرف سے کراچی پریس کلب میں زاکر مجید بلوچ سمیت تمام لاپتہ افراد کی عدم بازیابی اور بلوچستان بھر سے نہتے لوگوں کیاغواء و فورسز کی حراست میں ان کی شہادت کے خلاف پریس کانفرنس کیا گیا۔ بی ایس او آزاد کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سے فورسز کے ہاتھوں ہزاروں افراد سالو ں سے لاپتہ کیے جا چکے ہیں، پچھلے چند سالوں کے دوران ہزاروں نوجوانو ں کی لاشیں مختلف علاقوں میں پھینکی جا چکی ہیں۔ جن میں سینکڑوں ناقابلِ شناخت لاشیں بھی شامل ہیں ، جس کی وجہ سے لاپتہ افراد کے لواحقین شدید ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔انہوں نے کہا پچھلے چھ سالوں سے تنظیم کے سابقہ سینئر وائس چیئرمین زا کر مجید بلوچ فورسز کی تحویل میں ہیں، طویل احتجاجوں، لانگ مارچ، ہڑتالوں، خود پاکستانی عدلیہ کی احکامات اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے نوٹس لینے کے باوجود بجائے اس کے کہ فورسز لاپتہ اسیران کو عدالتوں میں پیش کرے، وہ روزانہ کی بنیاد پر بغیر کسی مقدمات کے بلوچ فرزندان کو اغواء و شہید کررہے ہیں، دیہاتوں کو جلایا جا رہا ہے، چائنی سرمایہ کاریوں کے اعلانات کے بعد ہزاروں خاندانوں کو ان کے علاقوں سے زبردستی بیدخل کیا جا چکا ہے، اسکولوں پر فورسز کئی سالوں سے قابض ہے، جس کی وجہ سے نوجوانوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔