|

وقتِ اشاعت :   June 11 – 2015

یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ کوئٹہ اور زاہدان کے درمیان ریل لنک کو بحال کیا گیا۔ ابھی یہ ایک کارگو ٹرین یا مال بردار ٹرین ہے جو کوئٹہ سے زاہدان روانہ ہوگئی۔ اس کا افتتاح وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کیا۔ اس موقع پر ریلوے کے چیئرپرسن پروین آغا اور صوبائی وزیر اطلاعات عبدالرحیم زیارتوال بھی موجود تھے۔ اس مال بردار ٹرین سروس کا بنیادی مقصد دونوں ممالک اور خصوصاً ایرانی اور پاکستانی بلوچستان کے ساتھ قانونی تجارت کو فروغ دینا ہے حکومت پاکستان کے بعض اہلکار قانونی تجارت خصوصاً ایران اور پاکستان کے درمیان پسند نہیں کرتے بلکہ وہ اسمگلنگ اور غیر قانونی تجارت کے حامی ہیں جس کے ذریعے ان کو بڑا حصہ مل جاتا ہے اس لئے بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں پر قانونی تجارت کا نام و نشان نہیں ہے۔ غیر قانونی تجارت یا اسمگلنگ میں فوائد صرف سرکاری اہلکارجو ان کاموں پر مامور ہیں یا پھر اسمگلرز حضرات کو ہوتی ہے ۔ عوام الناس اور ریاست پاکستان کو اسمگلنگ سے نقصان زیادہ ہوتا ہے، اس کو ٹیکس نہیں ملتے۔ قانونی تجارت سے عوام الناس کو روزگار کے ذرائع حاصل ہوتے ہیں اس لئے قانونی تجارت کا فروغ ایک خوش آئند بات ہے جس سے حکومت کو ٹیکس کی آمدنی میں اضافے کا امکان رہتا ہے بلکہ ریاستی آمدنی میں یقینی اضافہ ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ زاہدان اور کوئٹہ کے درمیان انتہائی پرانی ریلوے لائن ہے۔ اس کی تعمیر جدید تقاضوں کے مطابق دوبارہ کی جائے تاکہ پاکستان اس کے ذریعے دنیا بھر سے ریل کے ذریعے تجارت کرسکے۔ ایرانی حکومت 500کلومیٹر طویل ریل لائن زاہدان سے کرمان تک جدید زمانے کی ریلوے لائن بچھادی ہے اور زاہدان سے دنیا بھر کو ٹرین سروس جاری ہے۔ اس کے تمام فوائد ایران کے عوام اور خصوصاً ایرانی بلوچستان کے عوام کو حاصل ہیں۔ اب حکومت اسی ریلوے لائن کی توسیع کرے۔ زاہدان سے کوئٹہ تک بڑی ریلوے لائن ڈال دی جائے تاکہ نہ صرف کوئٹہ بلکہ پورا پاکستان اس سے مستفید ہو پاکستان دنیا بھر سے ریل کے ذریعے تجارت کرے خصوصاً ایران اور ترکی کے درمیان تجارت کے حجم میں زبردست اضافے کے امکانات ہیں۔ یہ کئی ارب ڈالر تک پہنچ جائیگی۔ صرف زمینی راستے سے ایران اور ترکی کے درمیان تجارت کا حجم 70ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ وجہ صرف دونوں ممالک کے درمیان بہتر ریل روڈ لنک ہیں۔ اگر ہمارے زمینی روابط پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری تجارت کے حجم میں کئی گنا اضافہ نہ ہوجائے۔ جہاں حکومت ریلوے کی بحالی پر سالانہ 30سے 40ارب روپے خرچ کررہی ہے وہاں ایک ارب سے زاہدان اور کوئٹہ کے درمیان ریلوے پٹڑی کو تبدیل کیا جاسکتا ہے اور ٹرین سروس پشاور سے شروع ہوکر دنیا کے کونے کونے تک جاسکتی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا وفاقی حکومت اس کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے گی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے وفاقی حکومت ،بلوچستان کی معاشی ترقی میں کسی خاص دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتی ،نہ صرف مسلم لیگ ن کی حکومت بلکہ پی پی حکومت کا رویہ بھی مختلف نہ تھا۔ وفاقی حکومت کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم اخراجات کئے جائیں۔ زیادہ تر رقوم بچاکر پنجاب یا دوسرے صوبوں کے منصوبوں پر خرچ کئے جائیں۔ یہ رویہ بلوچستان کے ساتھ کیوں ہے جتنی رقم بلوچستان کے لئے مختص کی جاتی ہے وہ پورا خرچ نہیں ہوتا۔ اکثر اوقات نصف سے کم رقم بلوچستان پر خرچ کی جاتی ہے۔ اس بجٹ کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ قلات کوئٹہ شاہراہ کا حصہ جو گزشتہ ایک دہائی سے زیر تعمیر ہے اس کے لئے صرف اس سال 5کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ اس پر ابھی 11ارب روپے خرچ ہونے ہیں جب کوئٹہ کے شاہراہ کا یہ حال ہو،تو دور دراز بلوچستان کے علاقوں سے کس کو دلچسپی ہوگی۔