|

وقتِ اشاعت :   June 13 – 2015

عمران خان نے گلگت بلتستان کے دورے کے دوران بڑے جلسے کئے۔ بلکہ مقامی لحاظ سے بہت بڑے جلسے کئے اور ہر شخص ان کو سننے کے لئے بے چین تھا کہ نئے لیڈر کا مختلف معاملات پر خیالات کیا ہیں۔ سکردو اور دوسرے علاقوں میں لوگوں نے عمران خان کو سنا اور بعد میں فیصلہ صادر کردیا کہ ان کو ووٹ نہ دیا جائے۔ وجوہات کچھ بھی ہوں عمران خان اور اس کی تحریک انصاف کو عبرتناک شکست ہوئی۔ 24نشستوں میں سے ان کو چوتھائی نشستیں بھی نہیں ملیں۔ دوسرے الفاظ میں لوگوں کو ان کی سیاست اور پالیسی پسند نہیں آئی۔ لوگوں نے بڑے پیمانے پر مسلم لیگ کو ووٹ دیا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ بڑے ہجوم سے خطاب کرنے اور بڑے بڑے جلسے کرنا کامیابی کی نشانی نہیں ہے۔ لوگ رہنماؤں کو سننے آتے ہیں اور لیڈر کی حیثیت کا تعین کرنے آتے ہیں۔ ان کو سنے اور دیکھے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتا۔ حالیہ دنوں میں تحریک انصاف اور پارٹی کے مالک کو دو شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ایک گلگت اور بلتستان کے انتخابات اور دوسرے منڈی بہاؤالدین کے قومی اسمبلی کے انتخابات۔ ان دونوں انتخابات کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان کی مقبولیت کا گراف نیچے کی طرف رواں ہے۔ جوں جوں دن گزرتے جارہے ہیں ان کی مقبولیت میں کمی ہورہی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں بدترین انتخابات کے پی کے کے مقامی کونسلوں کے انتخابات تھے جہاں پر دھاندلی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ انتخابات سے متعلق ہنگامہ آرائی میں 18افراد ہلاک ہوئے جو کہ آج تک کسی قومی انتخابات میں بھی اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتیں نہیں ہوئیں۔ جس پیمانے پر کے پی کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی اور عوام کا مینڈیت پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ کے پی کے میں تمام پارٹیاں متحد ہوگئیں یہاں تک جماعت اسلامی جو حکومت میں ایک حلیف جماعت ہے اور کابینہ کے وزیر نے پریس کانفرنس میں حکومت پر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے۔ اب وہ حزب اختلاف کی متحدہ جدوجہد میں دوسری پارٹیوں کے ساتھ ساتھ ہڑتالوں اور مظاہروں میں شریک ہے۔ آئے دن جلوس نکل رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ سمیت تمام وزیروں کو رسوائی کا سامنا ہے۔ ان سارے واقعات نے عمران خان کی سیاسی اڑان کو شدید نقصان پہنچایا۔ کہاں وہ ہفتوں اور مہینوں کے اندر ملک کے وزیراعظم بننے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ مگر حالیہ دنوں میں ان کو پسپائی، تنہائی اور پشیمانی نصیب ہورہی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ تنہائی کے شکارہیں۔ ان معاملات میں مقتدرہ عمران خان کی کوئی مدد نہیں کرسکتی۔ ان کی زبان درازی بھی ان کے کام نہیں آرہی ہے کہاں وہ سونامی کے دعویدار اور اب مکمل تنہائی کا شکار ہوگئے۔ ان کی حمایت میں کوئی نہیں بول رہا۔ بلکہ اس کا حامی کوئی نہیں رہا۔ ایک طاہر القادری تھے جو بیمار پڑگئے اور سیاست کو خیرباد کہہ کر اپنے ’’ملک‘‘ کینیڈا چلے گئے۔ ان کی واپسی کا زیادہ امکان نظر نہیں آتا۔ بلکہ ان کی صحت اجازت نہیں دے رہی ہے کہ وہ شدت کے ساتھ سیاست کریں۔ وہ سیاست جس کا مقصد موجودہ حکومت کا تختہ الٹنا ہو۔ بہر حال عمران خان کو تنہا سیاست کرنی پڑے گی۔ بعض اوقات مقتدرہ کی حمایت بھی ان کے کام نہیں آتی۔ جلسے کرنا اور اس میں دوسروں پر الزام لگانا آسان کام ہے۔ وقتی طور پر بعض لوگوں کی طرف سے الزامات لگانے پر پذیرائی ملتی ہے۔ مگر ہمیشہ یہ کام کارگر نہیں ہوتی صرف بردبار آدمی ہی سیاست کے لئے موزوں ہوتا ہے۔ جو شخص بردبار نہیں ہے وہ سیاستدان نہیں کچھ اور ہے۔