|

وقتِ اشاعت :   June 17 – 2015

ڈائریکٹر جنرل سندھ رینجرز نے ایپکس کمیٹی کے سامنے بڑے بڑے انکشافات کئے ہیں۔ یہ وہ انکشافات ہیں جو عام لوگوں کو معلوم ہیں کہ کراچی کی بدامنی میں بڑے بڑے لوگ اور سرکاری اہلکار ملوث ہیں۔ یہ سب کچھ دہائیوں سے ہوتا آرہا ہے۔ جس گروہ کی باری آتی ہے وہی بھتے کا بڑا حصہ لے جاتا ہے۔ کم اہل شریک کو کم حصہ ملتا ہے لیکن جونیئر اور سینئر پارٹنرز اس پر شور نہیں مچاتے ۔ مثال کے طور پر لینڈ مافیا یا زمین پر قبضہ کرنے میں سرکاری اہلکار ضرور ملوث ہوتا ہے اس کی مرضی اور منشاء کے بغیر یہ کام نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح بھتہ ہے جو گزشتہ تین دہائیوں سے مختلف ناموں سے وصول کیا جاتا رہا ہے۔ ایم کیو ایم کی آمد سے یہ کاروبار بڑے پیمانے پر پھیل گیا۔ الیکشن کے لئے فنڈز، پارٹی کے لئے یا کار خیر کے لئے چندہ۔ مگر کراچی پورٹ سونے کی چڑیا حالیہ سالوں میں بن گئی۔ کراچی پورٹ سے سامان لاد کر ہزاروں ٹرک اندرون ملک روانہ ہوتے ہیں اور یہ ٹرک سات ہزار سے 10 ہزار روپے بھتہ دیتے ہیں۔ پہلے تو یہ یہ ایم کیو ایم کی اجارہ داری تھی اور سرکاری اہلکاروں کو بھی اس پر خاص اعتراض نہ تھا۔ جب اعتراض ہوا تو لیاری گینگ وارکو مقابلے میں کھڑا کیا گیا۔ آخر کار یہ دولت لیاری گینگ وار کے حصے میں آئی۔ حالیہ دنوں میں ان سے بھی یہ چھین لیا گیا۔ اب کون بھتہ وصول کررہا ہے؟ کوئی یہ لوگوں کو بتانا پسندنہیں کرے گا۔ جہاں تک لیاری گینگ وار کا تعلق ہے اس کے متعلق گورنر اور وزیر اعلیٰ کو 1990 میں شکایات کی گئی تھیں کہ کروڑوں روپے کا ہیروئن کا کاروبارکررہا ہے۔ آج یہ پولیس کو بھتہ دے رہے ہیں کل وہ اپنے سینکڑوں گارڈز رکھیں گے اور بندوق کی نوک پرپولیس کوعلاقے سے بے دخل کریں گے۔ بعد میں فوج آکر امن وامان بحال کرائے اور ہوا بھی یہی۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ حکومتی افراد اور طاقتور لوگ گینگ وار، بھتہ مافیا، لینڈ مافیا کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ حزب اختلاف کے بڑے سے بڑا رہنما کسی ڈھکن چور کی پشت پناہی کی جرات نہیں کرسکتا۔ جو کچھ کراچی میں ہورہا ہے یہ اقتدار کا کھیل ہے۔ اسی سے عوام الناس کی زندگیوں سے کھیلا جارہا ہے۔ ایم کیوایم 30 سالوں تک اقتدار میں شریک رہا۔ اب اسی کی ضرورت باقی نہیں رہی تو اسے اقتدار سے باہر کردیا گیا۔ اس کے گورنر سے بھی کہا گیا کہ وہ اپنا بوریا بستر باندھ لیں۔ ایم کیو ایم اور اس کے مسلح افراد کو کسی قسم کی کاروائی کی اجازت نہیں ہوگی۔ ان کے تمام ذرائع آمدن بند ہوں گے اور ان کے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایم کیو ایم کے احتجاجوں میں ہزاروں افراد قتل ہوئے۔ صرف عام لوگوں نے الطاف حسین کے خلاف 37 قتل کے مقدمات قائم کئے جو جنرل پرویز مشرف نے ختم کئے۔ بلکہ ایم کیو ایم کے خلاف مجموعی طور پر ساڑے آٹھ ہزار سے زائد مقدمات ختم ہوگئے۔ NRO کا سب سے بڑا فائدہ ایم کیو ایم کو ملا۔ کراچی میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اقتدار کا کھیل ہے۔ اس کا مستقل حل یہ ہے کہ پولیس کو مضبوط بنایا جائے اور اس کی ساکھ کو بحال کیا جائے۔ پولیس ہی کراچی میں امن وامان بحال کراسکتی ہے۔ پولیس کیونکہ سول سوسائٹی کا حصہ ہے اور پولیس عوام الناس کے مزاج کو بخوبی سمجھتی ہے۔ لہٰذا کراچی شہر میں تمام اختیار ات پولیس کو دیئے جائیں اور پولیس سے بھرپور انداز میں کام لیا جائے۔ رینجرز اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے سب کے سب پولیس کے ماتحت ہوں۔ پولیس کو ضرورت پڑے تو رینجرز اور فوج اس کی مدد کو آئے۔ خصوصاً زیادہ تربیت یافتہ دہشت گردوں کے خلاف کاروائی میں پولیس کی مدد کی جائے۔ باقی شہر میں امن وامان کا قیام بنیادی طور پر پولیس کی ذمہ داری ہے۔ یہ اختیارات پولیس کو ملنی چاہئیں اور پولیس کے جو اختیارات رینجرز کو دئیے جاتے ہیں وہ فوری طور پر بند کئے جائیں۔ رینجرز کو گرفتار کرنے، قید میں رکھنے اور پولیس اسٹیشن بنانے کی اجازت واپس لی جائے۔ جتنی جلدممکن ہو، رینجرز کو بھارت کی سرحدوں پر بھیجا جائے کیونکہ وہاں صورت حال زیادہ خطرناک ہوگئی ہے خصوصاً بھارتی دھمکیوں کے بعد۔۔۔