|

وقتِ اشاعت :   July 5 – 2015

ملک کے معرض وجود میں آنے کے بعد جمہوری حکومتوں میں زیادہ حصہ مسلم لیگ اور پاکستان پیپلزپارٹی کے کھاتے میں آئی اور غیر جمہوری دور یقیناًزیادہ رہا ہے۔ حالیہ سیاسی مفاہمتی پالیسی کو جہاں بے حد سراہا گیا مگر وہی ان کے مدمقابل ایک نئی ابھرتی جماعت پاکستان تحریک انصاف دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے سامنے ایک چیلنج کی صورت میں آرہی ہے۔ 2013ء کے جنرل الیکشن میں جو نتائج سامنے آئے اُس میں پاکستان تحریک انصاف نے توقع سے زیادہ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی، کے پی کے ، پنجاب اور سندھ میں بھی اس نے اُن نشستوں پر کامیابی حاصل کی جو عرصہ دراز سے ان سیاسی جماعتوں کے قلعے رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے قائد و رہنماء بارہا یہ بات دورا رہے ہیں کہ اگلا سال الیکشن کا ہوگایا پھر الیکشن کی تیاری کی بات کی جارہی ہے، جنرل الیکشن میں جس طرح پاکستان تحریک انصاف کو کامیابی ملی وہ شاید کسی کے گمان میں نہ تھا اور کے پی کے میں اُس کی حکومت بھی بنی مگر الیکشن میں دھاندلی کے متعلق سب سے زیادہ شور بھی پاکستان تحریک انصاف نے مچایا ۔بہرحال دھاندلی شدہ الیکشن تھے یا صاف و شفاف، یہ ماضی کو جھانک کر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہیں ،اگلا سال الیکشن کا ہو یہ نہیں لگتا کہ پنجاب سے جس طرح پاکستان پیپلزپارٹی کے اہم رہنماء پی ٹی آئی میں شمولیت کررہے ہیں اور کچھ رہنماؤں کی بات چیت چل رہی ہے اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اب شاید پاکستان پیپلزپارٹی پنجاب میں اُن نشستوں پر کامیاب نہیں ہوگی اور اس کی جگہ پی ٹی آئی لے گی۔ اسی طرح کی صورتحال کراچی میں بھی دیکھنے کو ملے گی مگر پاکستان پیپلزپارٹی سندھ میں ایک مضبوط سیاسی جماعت ہے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی جو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر جانی جاتی تھی اب شاید وہ معاملہ نہ رہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو جس طرح عمران خان نے جلسے جلوس کیے اور سیاسی رونقوں کو ایک بار پھر ملک میں بحال کیا اس کی وجہ سے انہیں عوام میں زیادہ پذیرائی مل رہی ہے اور شاید آنے والی حکومت پاکستان تحریک انصاف کی بھی ہوسکتی ہے۔ مگر یہاں اس بات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ آنے والے الیکشن کے دوران سیاسی جماعتوں کے درمیان بڑا معرکہ ہوگا اب تک صرف دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان حکومت چل رہی تھی مگر اب تیسری جماعت بھی اقتدار کی تخت پر بیٹھنے کیلئے مکمل تیاری کررہی ہے۔ ملک میں حکومتیں تو بدلتی رہتی ہیں مگر عوام کی تقدیر کبھی نہیں بدلی، روزگار،امن وامان کی صورتحال، معیشت کی ترقی، دیگرممالک کی بڑے پیمانے پر پاکستان میں سرمایہ کاری سمیت اہم معاملات پر خاطر خواہ تبدیلی نہیں آئی۔ اب پی ٹی آئی بھی وہی دعوے کررہی ہے جو ماضی میں دیگر حکمران جماعت الیکشن سے پہلے کرتے آئے ہیں مگر اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ اگر اگلی باری پی ٹی آئی کی ہوئی اوروہ اپنے دعوؤں کو عملی جامہ نہ پہنا سکی تو یہ باری اسی پر ہی بھاری ہوگی کیونکہ عوام کے اتنے بڑے بڑے مجمعوں میں نیا پاکستان بنانے کا وعدہ تو کرلیا مگر اس نئے پاکستان کو اب بناکر بھی دکھانا پی ٹی آئی کیلئے ضروری ہے وگرنہ وہ بھی سیاسی منظر نامہ سے بالکل ہی غائب ہوجائے گا۔ اگر پی ٹی آئی نے واقعی تبدیلی لائی تو پی ٹی آئی کی باری دونوں جماعتوں پر بھاری ثابت ہوگی اگر وعدہ وفا نہ کرسکا پی ٹی آئی تو اگلی باری پی ٹی آئی کی آخری باری اور زیادہ پی ٹی آئی پر بھاری پڑجائے گی۔ عوام کی نظریں تینوں جماعتوں پراب بھی لگی ہوئی ہیں کہ دونوں جماعتیں پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دینگی یا پی ٹی آئی میدان مارے گی بہرحال ملک کے عوام ایک خوشحال پاکستان چاہتے ہیں جہاں قانون کی بالادستی اور جمہور کی اصل ترجمانی ہوسکے جس کے برائے راست ثمرات عوام کو مل سکیں