|

وقتِ اشاعت :   July 8 – 2015

یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ افغانستان امن مذاکرات پاکستان کی سرز مین پر ہورہے ہیں۔ گزشتہ روز کی مذاکرات میں طالبان کے نمائندوں نے شرکت کی اس کی میزبانی پاکستان نے کی ۔ مذاکرات میں امریکا اور پاکستان کے مبصرین بھی شریک ہوئے۔ امریکا نے ان مذاکرات کا خیر مقدم کیاا ور پاکستانی حکومت کی تعریف کی کہ اس نے سہولت کار کا کردار ادا کیا اور دونوں متحارب فریقوں کی میزبانی کے فرائض سر انجام دئیے ۔ ایک دن قبل افغان وزارت دفاع کے ایک نائب ترجمان نے یہ الزام لگایا کہ پاکستانی ہیلی کاپٹروں نے پکتیکا میں طالبان جنگجوؤں کو فضاء سے اسلحہ فراہم کیا تھا پاکستان حکومت نے اس پر اپنے رد عمل کا اظہار نہیں کیا ۔ بہر حال مبصرین کی رائے ہے کہ اس الزام میں صداقت نظر نہیں آرہی ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک دن قبل حکومت پاکستان افغان مخالف طالبان کو فضائی مدد سے اسلحہ فراہم کرے او دوسرے دن ان دونوں فریقوں کی امن مذاکرات میں میزبانی کرے۔ تبدیل شدہ حالات میں پاکستان میں کوئی بھی ذی شعو ر شخص یہ نہیں سوچ سکتا کہ افغانستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانا چاہیے ایسا شخص کوئی پاگل ہوسکتا ہے جو یہ توقع رکھتا ہو کہ امریکی اور ناٹو افواج کے انخلاء کے بعد پاکستان اس خلاء کو پر کرے گا ۔ افغانستان ایک آزاد ‘ خود مختار بلکہ تاریخی ملک ہے جو قائم رہے گا اور آزاد رہے گا۔ روس اور امریکا اس کی آزادی کوصلب نہ کر سکے تو ان کے مقابلے میں پاکستان ایک چھوٹا ملک ہے اور اسکے وسائل بھی انتہائی محدود ہیں اسلئے پاکستان کا قومی مفاد اسی میں ہے کہ افغانستان ایک مستحکم ملک رہے تاکہ وہاں کے بحران پاکستان کا رخ نہ کریں اور افغانستان خوشحال اور پر امن رہے اور علاقائی ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کرے۔ وزیراعظم اور اعلیٰ ترین عسکری قیادت کے آئے دن کے کابل کے دوروں کا مقد صرف یہ تھا کہ دہشت گردوں کا مل کر مقابلہ کیاجائے اورانہیں عبرتناک شکست دی جائے تاکہ پورے خطے میں امن رہے ۔ پورے خطے میں امن اور استحکام کی ضرورت آج کل کے حالات میں زیادہ اہم ہیں ۔ایران اور دنیا کے چھ طاقتور ملکوں کے درمیان مذاکرات نازک ترین مراحل میں داخل ہوچکے ہیں اگر دونوں فریقوں کے درمیان معاہدہ ہو جاتا ہے تو یہ ایک خوشگوار عمل ہوگا۔ تلخی کی صورت میں یہ پورا خطہ میدان جنگ بن جائے گا۔ یمن میں جنگ بند ہونے کے اشارے نہیں ہیں ۔ ایران حوثی قبائل کی حمایت کررہا ہے یمن کی حکومت ملک سے باہر ہے دونوں فریق جنگ میں زیادہ تیزی اور شدت لا رہے ہیں ایک دن میں یمن کے جنگ میں دو سو افراد ہلاک ہوئے ۔ اس سے مبصرین یہ اندازہ لگارہے ہیں کہ خطے میں جنگ کے پھیلنے کا خطرہ ہے ۔ اس لئے خطے کے ممالک کے درمیان قریبی تعاون ضروری ہے ۔ خصوصاً ایران ‘ پاکستان اور افغانستان کے درمیان یہ تینوں ملک خطے کو استحکام یا عدم استحکام کی طرف لے جا سکتے ہیں اگر افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعاون قریبی رہا تو ایران کو بھی مجبور کیا جا سکتا ہے کہ خطے کے وسیع تر مفاد میں ان دونوں پڑوسیوں سے بھر پور تعاون کرے ۔ دوسری صورت مغربی اور یورپی ممالک بشمول امریکا اس خطے میں اپنی حاکمیت اور بر تری قائم کر لیں گے۔ صرف ساحل مکران پر امریکہ کے 50سے زائد جنگی جہاز موجود ہیں ۔ پورے گلف کے خطے میں تین طیارہ بردار جہاز جن کا تعلق امریکا ‘ برطانیہ اور فرانس سے ہے آئے دن جنگی مشقیں کررہے ہیں جو مہینوں تک جاری رہتے ہیں ۔ ایران اور امریکا یا ناٹو ممالک کے درمیان آبنائے ہر مز کا تنازعہ چل رہا ہے۔ امریکیوں اور یورپیوں کو یہ خدشات لاحق ہیں کہ ایران آبنائے ہرمز کسی معمولی تنازعہ کی وجہ سے بند کرسکتا ہے ۔ جس سے دنیا کی معیشت چالیس فیصد تیل سے محروم ہو سکتی ہے ۔ اس طرح پورے خطے کی معیشت تباہ ہوسکتی ہے اگر امریکا اور ایران کے درمیان جنگ چھڑ گئی توافغانستان اور پاکستان جو ایران کے پڑوسی ہیں اور اس کے اثرات ان دونوں ممالک پر شدت کے ساتھ پڑ سکتے ہیں لہذا ضروری ہے کہ افغانستان اور پاکستان اپنے تعلقات استوار کریں اور مضبوط بنائیں تاکہ خطے میں جنگ کے خطرات کا مل کر مقابلہ کریں ۔