|

وقتِ اشاعت :   July 10 – 2015

پاکستانی اور بھارتی وزیراعظم نے ماسکو میں ملاقات کی اور دو طرفہ تعلقات کا جائزہ لیا گیا۔ بات چیت انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی ۔ وزیراعظم نواز شریف کی مدد سرتاج عزیز اور فاطمی نے کی ۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں اور آئے دن بھارتی افواج پاکستانی سرحدی چوکیوں اور بستیوں پر فائرنگ اور گولہ باری کرتی رہتی ہے جس سے کئی لوگ ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں ۔ پاکستانی افواج جوابی فائرنگ اور شیلنگ کرتی رہتی ہے اور بھارتی توپوں کو خاموش کردیا جاتا ہے ۔ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کے درمیان مذاکرات موجودہ کشیدہ ماحول میں ہور ہے ہیں جس سے یہ جائزتوقع کی جا سکتی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں کمی آئے گی اور دیگر معاملات خصوصاً تنازعات پر بات چیت کی راہیں کھل جائیں گیں ۔ واضح رہے کہ پاکستانی سفارت کار نے کشمیری رہنماؤں سے اس وقت ملاقات کی جب جامع مذاکرات دوبارہ شروع ہونے والے تھے ۔ اسی دوران بھارتی حکومت نے مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کیا کہ پاکستان بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہا ہے ۔ پاکستانی سفارت کار کی کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کو بہانا بنا کر بھارت نے پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات منسوخ کردئیے ۔ساتھ ہی کشمیری رہنماؤں کو دھمکی بھی دی کہ مذاکرات بھارت سے کریں پاکستان سے نہ کریں ۔بھارتی حکومت نے غصے میں آ کر مذاکرات منسوخ کردئیے اور ساتھ ہی پاکستان پر دباؤ بڑھانے کیلئے پاکستانی سرحدوں اور لائن آف کنٹرول پر مسلسل گولہ باری اور فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا جو تاہنوز جاری ہے ۔ ماسکو میں دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ بھارت جامع مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرے گا ۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت دنیا کے رائے عامہ کویہ غلط تاثر دینا چاہتا ہے کہ اس کا رویہ پاکستان کی جانب نا مناسب نہیں ہے لہذا پاکستان کے وزیراعظم کی روس میں موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے وزیراعظم سے رسمی ملاقات کی جائے اور دو طرفہ معاملات پر بات چیت کی یقین دہانی کی جا ئے۔ اس کے برعکس دنیا کا ہر ملک بھارتی رویے کی مذمت کرتا کہ ایک مغرور طاقت ہے اور کمزور ملکوں پر اپنا دباؤ بر قرار رکھتا ہے ۔ اور ان کو اکثر وبیشتر دھونس اور دھمکی دیتا رہتا ہے۔اس لئے اس ملاقات سے زیادہ توقعات نہیں رکھنی چائیے ،یہ رسمی ملاقات ہے اور اس کا دورانیہ بھی نصف گھنٹہ ہے نصف گھنٹے میں کوئی بات نہیں ہو سکتی ۔ البتہ یہ فیصلہ ضرور ہو سکتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے عمل کو دوبارہ شروع کیاجائے ۔ تجارت اور دوسرے کم اہم معاملات پر بات ہوگی کم سے کم کشمیر کے تنازعہ پر بات چیت کرنے سے بھارت ہمیشہ گریزاں رہے گا۔ بھارت کے مطابق کشمیر کوئی تنازعہ نہیں البتہ بھارتی رہنماؤں کی یہ خواہش ضرور ہے کہ آزاد کشمیر پر بھی قبضہ کیاجائے ۔ خطے کی موجودہ صورت حال انتہائی خطر ناک ہے ۔ اس خطے میں صف آرائی مکمل ہوچکی ہے ۔ ایران ایک طرف اور عرب ممالک دوسری طرف اورمسلمانوں کی تین بڑے ملک پاکستان ‘ مصر اور ترکی عرب اتحاد کے ساتھ ہے ۔ ایران کے پشت پر روس اور عرب اتحاد کے پشت پر امریکا اور ناٹو ممالک ہیں ۔ اگر کسی وجہ سے موجودہ کشیدگی یا فوجی صف آرائی جنگ میں تبدیل ہوگئی تو لازماً بھارت اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا اور وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تمام معاملات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ وہ خطے کا نہ صرف واحد سپر پاور بن جائے بلکہ اس کو خطے کی تھانے داری بھی مل جائے اور وہ چھوٹے چھوٹے تمام ہمسایہ ممالک پر حکم چلائے۔۔ وہ اقوام متحدہ کا مستقل رکن بھی بن جائے گا۔ ایٹمی ملک وہ پہلے سے ہے امریکا کی سرکردگی میں ناٹو ممالک بھارت کوایٹمی قوت تسلیم کر لیں گے۔ بھارت ‘ معلوم ہوتا ہے کہ موقع کی تلاش میں ہے کہ کب وہ حتمی کارروائی کرے، پاکستان سے مذاکرات کو وہ رسماً استعمال کرتا رہتا ہے ۔ وہ پاکستان کے ساتھ تنازعات کا حل نہیں چاہتا بلکہ اس کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان ایک زیردست ریاست رہے اور خطے پر حکمرانی بھارت کی ہو ۔