حال ہی میں پی پی کے چند اہم رہنما اور سابق وفاقی وزراء نے پی پی پی سے استعفیٰ دے دیا بعض نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی ۔ عمران خان نے ان کو خوش آمدید کہا اور یہ کہا کہ یہ پی پی پی کے نظریاتی کارکن ہیں اور وہ پی پی کے نظریاتی کارکنوں کی اپنی پارٹی میں شمولیت کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے سردار آصف علی زرداری پر اور اس کی پالیسیوں پر تنقید کی اور کہا کہ ان کی پالیسیوں کی وجہ سے پی پی پی کے نظریاتی کارکن نالاں ہیں ۔ سیالکوٹ سے سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاشق اعوان نے بھی استعفیٰ دے دیا ۔ پی پی اقتدار میں رہتے ہوئے بھی خوفزدہ تھی بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد دوسرے لوگ خصوصاً آصف زرداری بھی دشمنوں کا ٹارگٹ تھے ۔ اس وجہ سے عوامی اجتماعات بھی انہوں نے ایوان صدر میں کروائے ۔ وجہ صرف سیکورٹی تھی ۔ بے نظیر بھٹو پر کراچی میں حملہ کے بعد ا س بات کی نشاندہی ہوگئی تھی کہ طاقتور گروہ کسی قیمت پر بے نظیر کو حکومت نہیں کرنے دیں گے۔ وجہ یہ تھی کہ شہید بے نظیر کا یہ اعلان تھا کہ حکم ان کا یا وزیراعظم کا چلے گا۔ دوسری جانب پرویزمشرف بضد تھے کہ ملک پر وہی حکمرانی کریں گے کسی اور کو اجازت نہیں ہوگی ۔بے نظیر کی شہادت کے بعد پی پی نے مرکز اور دو صوبوں میں حکومتیں بنائیں چونکہ بلوچستان ایک سیکورٹی صوبہ ہے اس پر سے روز اول سے آصف زرداری نے ہاتھ اٹھا لیا اور حکمرانوں کو ’’ مقامی خود مختاری ‘‘ دے دی اور ان کے معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ آصف زرداری بڑے طمطراق کے ساتھ پہلی بار بلوچستان آئے اور انہوں نے بلوچستان کے لیے خصوصی پیکج کا اعلان کیا جو 48ارب روپے تھا۔ یہ وہی اسکیمیں تھیں جو بجٹ میں پہلے سے شامل تھیں ان میں کوئی نئی اسکیم شامل نہیں تھی ۔اس کے بعد آصف زرداری نے پورے پانچ سال بلوچستان کا رخ نہیں کیا کیونکہ یہاں پر اس کی حکمرانی نہیں تھی یا حکمرانی اسلام آباد اور سندھ تک محدود کردی گئی تھی۔ ان تمام باتوں کے باوجود پی پی ایک بہت بڑی پارٹی ہے ۔دو فوجی آمر ‘ ضیاء الحق اور پرویزمشرف ‘ اس کو ختم نہ کر سکے ان دونوں کے اقتدار کے خاتمے پر پی پی ہی اقتدار میں آئی، گزشتہ انتخابات میں پی پی اور اے این پی کو انتخابی مہم نہیں چلانے دی گئی ان کے لیے طالبان اور دوسرے دہشت گرد کافی تھے ان دہشت گردوں نے پی پی پی اور اے این پی کے رہنماؤں کو گھروں تک محدود کردیا، صرف اس وجہ سے پی ایم ایل ن اور تحریک انصاف نے انتخابات جیتے ۔ یہ ضرور ہے کہ پی پی پی ‘ اے این پی اوربی این پی کو گزشتہ انتخابات میں پسپائی کا سامنا کرنا پڑا یا شکست ہوئی مگر یہ تینوں پارٹیاں عوامی پارٹیاں ہیں ‘ عوام کے بڑے حصے کی نمائندگی کرتے ہیں جب کبھی بھی شفاف اور ایماندارانہ انتخابات کرائے گئے تو یہ تینوں پارٹیاں دوبارہ کامیاب ہوں گی ۔ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کا نعم البدل نہیں ہوسکتے ۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے لئے دولت کی فراوانی ہے وہ بے تحاشہ رقوم خرچ کرتے رہے ہیں مسلم لیگ ن تو تاجر لیگ ہے اور تاجر برادری ان کی مدد کرتی ہے ۔ الیکشن میں بے پناہ رقم فراہم کرتی ہے اس کے جیتنے کی سب سے بڑی وجہ دولت کی ریل پہل ہے ۔ تحریک انصاف سے متعلق معلومات نہیں کہ اتنا فنڈ ان کے پاس کہاں سے آتا ہے ۔ کون سی غیبی طاقت ہے جو ان کو اتنا فنڈ فراہم کرتی ہے بہر حال سندھ اور پنجاب کی سیاست میں پی پی ایک اہم عنصر ہے ۔ اگر پی پی پی کے رہنماؤں نے مسلم لیگ ن کا طرز عمل چھوڑ دیا اور پی پی پی کی روایتی سیاست دوبارہ اپنائی تو مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کو پنجاب اور کے پی کے میں شکست یقینی ہے ۔ پی پی کا کیڈر مضبوط ہے ۔ اسی طرح لیاری میں گینگ وار کے خاتمے کے بعد دوبارہ ابھر کر آئے گی۔ لیاری کی سیاست پر پی پی کا غلبہ رہے گا ۔بعض مبصرین کا خیال ہے کہ پی پی پی کے مرکز سندھ پر حملہ ہوگیا ہے پی پی پی کے خلاف بڑی بڑی قوتیں متحرک ہیں اور ان کو یقین ہے کہ وہ پی پی پی کو سندھ کی سیاست سے بے دخل کردیں گے ۔ مگر حالات اور واقعات کسی اور چیز کی نشاندہی کررہے ہیں کہ سندھ پی پی پی کا قلعہ رہے گا دوسری کسی پارٹی میں یہ سکت نہیں ہے کہ وہ پی پی پی کو سندھ سے بے دخل کردے ۔
پیپلزپارٹی کا مستقبل
وقتِ اشاعت : July 11 – 2015