پاک فوج کے ترجمان نے واضح طورپر اعلان کیا ہے کہ فوج اور عوام طالبان کو دوبارہ شمالی وزیرستان اوردوسرے قبائلی علاقوں میں واپس نہیں آنے دیں گے ۔ انہوں نے اس بات کو یکسر رد کردیا ہے کہ طالبان کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت یا مذاکرات ہوسکتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اتنی مشکل سے طالبان کو ہر لحاظ سے شکست دینے کے بعد حکومت یا اس کا کوئی ادارہ ان کو اپس آنے اور اپنی کارروائیاں دوبارہ شروع کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے ۔ اس سے زیادہ سخت رد عمل عوام کا ہوگا جنہوں نے بہت زیادہ تکالیف برداشت کیں اور اپنے گھروں سے بے گھر رہے اور اس دوران انہوں نے اور ان کے بال بچوں نے اذیتیں برداشت کیں۔ ان مشکلات کے بعد طالبان دہشت گردوں کو دوبارہ کس طرح پناہ دیں گے۔ یہ اعلان بڑا خوش آئند ہے کہ حکومت اور اس کے اداروں نے یہ تہیہ کر لیا ہے کہ طالبان سے نہ مذاکرات ہوں گے اور نہ ہی ان سے کسی قسم کی مفاہمت ہوگی ۔ادھر سندھ کی بڑی کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان تمام مدارس کے خلاف زبردست کارروائی کی جائے گی جو دہشت گردی میں ملوث ہیں اور دہشت گرد ان مدارس کو پناہ گاہ کے طوپر راستعمال کرتے ہیں ۔ بعض مدارس تو دہشت گردوں کے لئے بھرتی دفتر کا کام کرتے ہیں اور یہاں سے ان بچوں کو ذہنی طورپر دہشت گردی کے لئے تیار کیا جاتا ہے ۔ کراچی میں ایسے مدارس کی تعداد درجنوں بتائی جاتی ہے ۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ایک دہائی گزرنے کے بعد اور اتنی بڑی تباہی اور بربادی کے بعد ان مدارس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور نہ ہی ان انتظامی اور مالی معاونت کرنے والوں کو گرفتار کیا گیا ۔ معلوم ہوتا ہے گزشتہ کئی سیاسی حکومتیں اب بھی جنرل ضیاء الحق کے منافقانہ حکومت کے دائرہ اثرمیں رہتے رہے ہیں ۔ حکومت اور اس کے تمام اہلکاروں کے ہوش ٹھکانے آجانے چائییں کہ ہم کو دنیا کے کسی ملک کے خلاف جہاد نہیں کرنا ہے ۔ ہم کو اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ معمول کے تعلقات رکھنا ہے ۔ ان کے خلاف جہاد نہیں کرنا اور نہ ہی افغانستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانا ہے ۔ متعلقہ سرکاری اور عسکری رہنماؤں نے کئی بار یہ اعلانات کیے ہیں کہ پاکستان کے دفاع کے لئے افغان سرزمین کی ضرورت نہیں ہے ۔ پاکستان ایک مستحکم فوجی قوت ہے اور اپنی دفاع خود کرے گا ۔اس کے بعد عمران خان جیسے لوگوں کو یہ توقعات چھوڑ دینے چائییں کہ طالبان سے مفاہمت کیلئے سیاسی مذاکرات ہوسکتے ہیں اور طالبان کی دوبارہ بحالی کی جا سکتی ہے جنہوں نے ریاست پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے پاکستان کے پچاس ہزار سے زائد شہری اور پانچ ہزار سے زائد سیکورٹی اہلکار شہید کیے ہیں ، قاتلوں سے مفاہمت نہیں ہو سکتی ۔ ان کے لئے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ ہتھیار ڈال دیں ۔ یہ فیصلہ پاکستان کی حکومت اور عوام پر چھوڑ دیں کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ۔ ان کو سزائیں دی جائیں یا ان کو معاف کیا جائے ۔ طالبان کے خلاف زبردست کارروائی کے اثرات سامنے آرہے ہیں ۔ امن وامان کی صورت حال تمام صوبوں میں بہتر ہورہی ہے ۔ جرائم میں کمی آئی ہے ۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے عوام الناس کو اس میں زبردست دلچسپی ہے کہ دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جائے ۔ ان کے کمانڈ اور کنٹرول کے نظام کو تباہ کیا جائے ان کی حملہ کرنے کی صلاحیت چھین لی جائے اور ان کے فنڈز کے تمام دروازے بند کیے جائیں ۔ سب سے پہلے اس بات کی یقین دہانی کی جائے کہ ان کو بیرون ملک سے مالی امداد روک دی جائے تمام دوست ممالک خصوصاً ایران اور سعودی عرب پر نگاہ رکھی جائے کہ وہ اپنا پراکسی وار بلوچستان میں نہ لڑیں بلکہ پاکستان بھر میں نہ لڑیں اور تمام دہشت گرد تنظیموں کی مالی ‘ سیاسی اور ہر قسم کی امداد بند کرکے پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ دوستی کا حق ادا کریں ۔ ہزاروں دہشت گرد گرفتار ہوچکے ہیں ان سب پر کھلی عدالتوں میں مقدمات کا جلد آغاز کریں تاکہ دنیا کو یہ معلوم ہو کہ انہوں نے انسانیت کے خلاف کتنے سنگین جرائم کیے ہیں صرف عدالتی نظام اور شفاف عدالتی نظام سے دنیا کی رائے عامہ کو بتائیں کہ پاکستان کے عوام پر کتنے مظالم ڈھائے گئے ہیں ۔
طالبان کے خلاف کارروائی
وقتِ اشاعت : July 13 – 2015