وفاقی حکومت کے دو انتہائی طاقتور وزراء نے یہ اشارہ دیا ہے کہ حکومت متحدہ کے خلاف ایک بڑی اور فیصلہ کن کارروائی کی تیاری کررہی ہے ۔ یہ اشارے انہوں نے ٹاک شو اور اخباری نمائندوں سے بات چیت کے دوران دئیے ہیں ۔ ان میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان جو پاکستان کی مقتدرہ کے ترجمان بھی ہیں اور دوسرے وزیر خواجہ آصف جن کے پاس دفاع کا قلمدان بھی ہے ۔ ابتدائی چند گھنٹوں کے بیانات کے بعد الطاف حسین کے خلاف دو درجن سے زائد مقدمات سندھ کے مختلف شہروں میں درج کیے گئے ۔ ان کے بیان میں اشتعال انگیزی کے علاوہ ان پر دہشت گردی کے دفعات بھی شامل کیے گئے ہیں شاید مقتدرہ کا یہ مقصد ہے کہ الطاف حسین نے فوج کے خلاف بغاوت اور نفرت پھیلانے کی کوشش کی ہے بلکہ لوگوں کو دہشت گردی کی طرف اکسایا ہے ۔ ان تمام اقدامات سے اندازہ لگایا جارہا ہے کہ حکومت نے الطاف حسین اور متحدہ کے دوسرے رہنماؤں کے خلاف کارروائی کاآغاز کر لیا ہے ۔ ادھر سندھ رینجرز نے بھی صورت حال کا جائزہ لیا ہے۔ خصوصاً الطاف حسین کی اشتعال انگیز تقریر کے بعد بعض مبصرین کا خیال ہے کہ سندھ حکومت اور خصوصاً پی پی پی نے بھی مستقبل کے تمام کارروائیوں کی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے اور اسی وجہ سے رینجرز کے خلاف جارحانہ باتیں نہ صرف بند ہوگئیں ہیں بلکہ سندھ کی پی پی پی حکومت ان کارروائیوں کی حمایت کرے گی۔ موجودہ صورت حال میں تبدیلی نظر آرہی ہے اور یہ اندازہ لگایا مشکل نہیں ہے کہ کارروائی انتہائی سخت ہوگی جس کو شاید متحد ہ کے لوگ برداشت نہ کریں اور بعض اسی وجہ سے اپنی دفاداریاں تبدیل بھی کردیں ’ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ متحدہ نے انور کو رابطہ کمیٹی سے اس لئے الگ کردیا ہے تاکہ ان پر بھارتی ایجنٹ ہونے کا الزام نہ لگے اور اگر لگ گیا ہے تو وہ الزام واپس لیا جائے ۔ انور بھارتی باشندے ہیں اور متحدہ کے اہم ترین فیصلوں کے روح رواں ہیں ۔ ادھر حکومت پاکستان نے الطاف حسین کے بیان اور تقاریر کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ برطانوی حکومت سے رابطہ کیا جائے گا اور برطانوی حکومت کو بتایا جائے گا کہ الطاف حسین برطانیہ کی سرزمین سے پاکستان ،اس کی حکومت اور مسلح افواج کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں اور لوگوں کو دہشت گردی پر اکسا رہے ہیں ۔معلوم نہیں کہ حکومت برطانیہ کا رد عمل کیا ہوگا بہر حال یہ بات برطانوی حکام کے علم میں ہے کہ الطاف حسین لندن میں بیٹھ کر پاکستان اور اس کی حکومت کے خلاف آئے دن لوگوں کو اکساتے رہتے ہیں اور گزشتہ بیس سالوں سے الطاف حسین کو نہیں روکا گیا بلکہ لندن متحدہ کے کارروائیوں کا مرکز بن گیا ہے ۔ شاید اسی بات کے پیش نظر’’ را‘‘ کے سابق سربراہ نے یہ الزام لگایا کہ الطاف حسین برطانوی سیکوٹی ادارے MI.6کے مہمان ہیں ۔ شاید اسی وجہ سے الطاف حسین کو یہ سب مراعات دی گئیں کہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنائے ۔ بہر حال ملکی سیاسی صورت حال میں نائن زیرو پر چھاپے کے بعد ایک بڑی تبدیلی آئی ہے ۔متحدہ مقتدرہ کا حامی اور طرف دار تھا اور اپنی عمر کے بیس سالوں میں یہ حکومتوں کا حصہ رہا بلکہ جنرل پرویزمشرف نے اس کو زیادہ اختیارات دے کر اور زیادہ طاقتور بنایا ۔ اب متحدہ ایک اژدھا بن چکا ہے ۔ حکومت کیلئے آسان نہیں ہوگا کہ اس پر جلد قابو پائے ۔ ممکن ہے پاکستان کے دشمن ممالک اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے متحدہ کی کھلی حمایت کریں اور پاکستان پر دباؤ بڑھائیں ۔ البتہ حکومت کے ان اقدامات سے ممکنہ طورپر عام پاکستانیوں کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے متحدہ کیلئے ابتداء سے ایک ہی راستہ تھا کہ وہ روایتی سیاست کرے اور غیر روایتی سیاست ختم کرے اس میں سب سے پہلے اپنے مسلح دھڑے کو خود ختم کرے جس سے اس کو پذیرائی مل سکتی ہے ۔ جب متحدہ بنائی گئی تھی تو یہ توقعات زیادہ تھیں کہ وہ ایک متوسط طبقے کی پارٹی ہوگی اور وہ متوسط طبقے اور غریبوں کیلئے کام کرے گی مگر افسوس متحدہ نے تامل ٹائیگر والی پالیسی اپنائی ۔ سب کچھ چیف صاحب ہیں جیسا کہ ہر مافیا کا ہوتا ہے ۔ پارٹی کے تمام لوگ زیرو اور ان کی کوئی اوقات نہیں ۔ ظاہر ہے اس کا آخر کار حشر تامل ٹائیگر جیسا ہوگا اس سے مختلف نہیں ہو گا۔
متحدہ کے خلاف کارروائی کی تیاری
وقتِ اشاعت : July 14 – 2015