متحدہ کے سربراہ الطاف حسین کے خلاف اب تک سو سے زائد مقدمات درج کیے گئے ہیں یہ تمام مقدمات عام شہریوں نے درج کرائے ہیں ان میں بغاوت کے الزام کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی دفعات بھی شامل ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ یہ مقدمات سرکاری اہلکاروں کی ہدایات پر قائم کی گئی ہیں ۔ اس سے پہلے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی ایک رہنما کے خلاف اتنے سارے مقدمات صرف چند دنوں میں درج کیے گئے ہوں ۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ متحدہ اور حکومت کے درمیان تصادم نا گزیر ہوتی نظر آرہی ہے ۔ الطاف حسین کے جارحانہ بیانات اور متحدہ کے مقامی رہنماؤں کی بھی جارحانہ سیاست نے دونوں پارٹیوں کو ایک تصادم کے قریب لا کھڑا کیا ہے ۔ اس سے بچنے کی کم سے کم مدت اور راستے رہ گئے ہیں ۔ الطاف حسین نے اس بار واضح اعلان کیا ہے کہ وہ متحدہ کی قیادت سے دستبر دار نہیں ہوں گے۔ اس پر مقتدرہ زیادہ سیخ پا نظر آرہی ہے اور جلد سے جلد متحدہ کے خلاف زبردست کارروائی کرنے کی تیاری کرتی نظر آرہی ہے ۔ الطاف حسین کے براہ راست ٹی وی خطاب پر پابندیاں لگا دی گئی ہیں اور ان کے جارحانہ الفاظ جو وہ تقاریر میں استعمال کررہے ہیں وہ بھی حذف کیے جارہے ہیں ۔ لہذا لوگ ان کا بیان براہ راست نہ سن سکیں گے نہ پڑھ سکیں گے۔ پیمرا نے تمام ٹی وی چینلز کوحکم نامہ جاری کیاہے کہ ملک کے خلاف باتیں نشر کرنے پر ان کے خلاف بھی بغاوت کا مقدمہ درج ہوجائے گا اس لئے الیکٹرانک میڈیا پہلی بار محتاط ہوگئی ہے ورنہ تمام چینلز پر الطاف حسین کا گھنٹوں قبضہ ہوتا تھا اور جو ٹی وی چینل براہ راست تقاریر نشر نہیں کرتاتھا اس پر حملوں کا خطرہ ہمیشہ رہتا تھا۔ آج کل رینجرز نے متحدہ کے خلاف کارروائیاں زیادہ تیز کردی ہیں ان کو زکوۃٰ ‘ فطرہ جمع کرنے سے روکا جارہا ہے ۔ حکومتی عناصر یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ زکوۃٰ ‘ فطرہ اور کھالوں کی رقم متحدہ کے لوگ مبینہ طورپر دہشت گردی کیلئے استعمال کررہے ہیں اور یہ رقم لندن میں الطاف حسین کے ذاتی خزانے میں جمع کرارہے ہیں ۔ اس کی اجازت حکومت نہیں دیگی ۔ حال ہی میں متحدہ کے بعض کارکنوں کو فطرہ اور زکوۃٰ کی رقوم جمع کرتے ہوئے گرفتار کر لیا گیاتھا اور ان کا کیمپ اکھاڑ دیا گیا تھا جس پر متحدہ نے شدید احتجاج کیا تھا۔ سیاسی تصادم کی بنیادی وجہ حکومت کی طرف سے متحدہ پر دہشت گردی ‘ ٹارگٹ کلنگ ‘ بھتہ خوری وغیرہ کے الزامات ہیں متحدہ ان کی تردید کرتی ہے متحدہ کا دعویٰ ہے کہ اس کے چالیس سے زائد کارکنوں کو غیر قانونی طورپر رینجرز نے قتل کیا اور سینکڑوں کو گرفتار کیا ۔متحدہ کا الزام ہے کہ رینجرز یہ کارروائی صرف اور صرف متحدہ کے خلاف کررہی ہے ۔ کسی دوسری پارٹی کے خلاف نہیں ، آئے دن متحدہ کے لوگوں کوگرفتار کیا جارہاہے ۔ دوسری طرف حکومت نے ایک فہرست دی ہے جس میں متحدہ کے لوگ خوفناک قسم کی دہشت گردی کے واقعات کے ذمہ دار ہیں ۔ ان میں بلدیہ ٹاؤن میں گارمنٹ فیکٹری کو آگ لگانا اور اس میں 259افراد کی ہلاکت کا ذمہ دار صرف اور صرف متحدہ کے رہنما اور کارکن ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ بھتہ نہ ملنے پر متحدہ کے کارکنوں نے رہنماؤں کی ہدایات پر فیکٹری میں آگ لگائی تھی ۔حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ خود متحدہ کے کارکنوں کے سینکڑوں کی تعداد میں بیانات ہیں کہ وہ ٹارگٹ کلنگ ‘ بھتہ خوری ‘ دہشت گردی ‘ مخالفین کو کچلنے کے لیے اسلحہ کا بے دریغ استعمال کرتے تھے ۔ حکومت یہ کہتی ہے کہ متحدہ کا ایک جنگجو ونگ موجود ہے جو دہشت گردانہ کارروائیاں کرتی ہے ۔ ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے اور وقت پر پورے شہر میں خوف و ہراس پھیلا کر متحدہ کے ہڑتالوں کو کامیاب بناتی ہے حکومت صرف اس ونگ کے خلاف کارروائی کررہی ہے ۔ سیاسی لیڈر اس قسم کی کارروائیوں میں ملوث ہیں تو ان کے خلاف بھی کارروائی ہورہی ہے ۔ تاہم یہ ایک افسوسناک فیصلہ ہوگا کہ متحدہ اور حکومت کے درمیان تصادم ہوجائے یہ ملک اور ملت کیلئے نیک شگون نہیں ہوگا۔ حکومت کو زیادہ صبر اور برداشت سے کام لینا چائیے اور کارروائیوں کو سیاسی رہنماؤں تک جان بوجھ کر نہیں پھیلانا چائیے جس سے پاکستان کے دشمنوں کو فائدہ ہوگا دونوں فریقوں کو تکبر کی راہ اختیار نہیں کرنی چائیے ۔
الطاف حسین کے خلاف مقدمات
وقتِ اشاعت : July 16 – 2015