صوبائی حکومت نے قبائلی عمائدین کے ایک وفد کو خان قلات سے ملاقات کرنے کیلئے لندن روانہ کیا تھا ۔ وفد کی قیادت نواب شاہوانی نے کی اس میں سردار کمال خان بنگلزئی اور میر کبیر محمد شہی اور خالد لانگو شامل تھے ۔ سردار اسلم بزنجوویزادیر سے ملنے پر وفد کے ساتھ نہ جا سکے ۔ وزیراعلیٰ عبدالمالک نے اس بات کی تصدیق کی کہ خان قلات نے روایات کے مطابق وفد کو عزت بخشی اور ان سے مذاکرات کیے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق خان قلات نے ملک واپس آنے سے معذوری ظاہر کی ۔ بعض ذرائع کے مطابق خان قلات نے وطن واپس آنے کے بعض شرائط رکھیں اس میں فوجی آپریشن کا فوری خاتمہ ‘ گرفتار شدگان اور گمشدہ سیاسی مخالفین کی فوری رہائی اور صوبائی نظم و نسق سویلین کے حوالے اور فوجوں کی بیرکوں میں واپسی ۔ تاہم ان تمام شرائط کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ۔ مختصر یہ ہے کہ وفد اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا ۔ اور خان آف قلات نے موجودہ صورت حال میں وطن واپس آنے سے انکار کیا ۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ایک گرینڈ قبائلی جرگہ نے نواب بگٹی کی شہادت کے بعد ان کو اختیار دیا تھا کہ خود ساختہ جلا وطن یا وطن چھوڑ کر ملک سے باہر جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہی گرینڈ جرگہ ان کو واپس بلائے گا تو وہ وطن واپس آسکتے ہیں ۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ قبائلی عمائدین کا وفد ناکام واپس لوٹا ہے اور پہلے کی طرح یہ وفد بھی ناکام واپس آیا ہے ۔ ادھر ڈاکٹر مالک نے اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی اور مرکزی حکومت نے اس کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ مسلح مزاحمت کاروں اور ان کے رہنماؤں سے رابطہ کرے اور ان کو بات چیت کے ذریعے متنازعہ معاملات کو حل کرنے کی کوشش کرے ۔ ڈاکٹر مالک نے کہا کہ ان کی اور حکومت کی یہ خواہش ہے کہ مزاحمت کار مسلح جدوجہد کا راستہ چھوڑ کر پر امن سیاسی عمل میں حصہ لیں اور اس جدوجہد کی صورت میں اپنے حقوق حاصل کریں ۔ ان کے اس اپیل پر ابھی تک کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا البتہ خان قلات نے ان کی تجاویز کو رد کیا ۔ ابھی تک حکومت نے حقیقی مزاحمت کارسے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ نواب مری جب تک زندہ تھے ان سے رابطہ کسی نے نہیں کیا ۔ سردار عطاء اللہ مینگل کے ساتھ تا حال کسی نے رابطہ نہیں جنگجو ؤں نے یہ اعلان کررکھا ہے کہ وہ آزادی حاصل کرنے تک اپنی جنگ جاری رکھیں گے۔ اکثر جلا وطن گزارنے والے مزاحمت کاروں کے اخبارات میں بیانات آتے رہتے ہیں اور ان کا کوئی ارادہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ صوبائی یا وفاقی حکومت سے با معنی مذاکرات کرنے کو تیار ہیں ۔ ہماری رائے ہے کہ حالات کو بہتر بنانے کیلئے حکومت کو ایسے اقدامات اٹھانے چائیے جس سے مزاحمت کاروں اور ان کے حمایتوں کو یقین ہو کہ حکومت مذاکرات کرنے اور معاملات کا حل تلاش کرنے میں سنجیدہ ہے ۔ اعتماد سازی کی فضا پہلے بحال ہو اس کے بعد ہی مذاکرات کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے ۔ صرف زبردست فوجی قوت کا مظاہرہ کرنے سے سیاسی انہام و تفہیم کی راہ نہیں نکل سکتی ۔ اس سے حالات مزید خراب ہوئے ہیں پہلے رد عمل صرف مری اور بگٹی قبائلی علاقوں میں موجود تھا ۔ حد سے زیادہ فوجی قوت کے استعمال کا یہ نتیجہ نکلا کہ گڑ بڑ‘ جنگ و جدل بلوچستان کے دوردراز علاقوں تک پھیلے گی ۔ ایک طاقتور سویلین حکومت ہی مسئلے کا کوئی حل تلاش نہیں کر سکتی ۔ موجودہ حکومت بہت زیادہ طاقتور نہیں ہے ۔ صرف نیشنل پارٹی کے باقی اتحادی جماعتوں کو بلوچستان کے موجودہ مزاحمتی عمل سے کوئی غرض نہیں ۔ دوسری بڑی سیاسی جماعت جو آج کل حکومت سے باہر ہے اس کا بھی رد عمل ایسا ہی ہے جیسے اتحادیوں کا ہے بلکہ وہ تمام پارٹیاں اپنی ذاتی اور گروہی مفادات کے خاطر بلوچستان میں سیاسی عمل میں مداخلت کررہے ہیں یا حصہ لے رہے ہیں ۔ ان تمام قوتوں نے ابھی تک نیشنل پارٹی کی بھر پور طریقے سے حمایت نہیں کی سوائے نیشنل پارٹی کے باقی سیاسی پارٹیاں عوام کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں بلکہ مخصوص مفادات کے لوگوں کی خدمت کررہے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت پہلے اعتماد سازی کے اقدامات اٹھائے اور پھر مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کیا جائے جس سے توقع ہے کہ مثبت نتائج نکل سکتے ہیں ۔