|

وقتِ اشاعت :   July 23 – 2015

ہر سال کی طرح اس سال بھی سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہ کاریوں کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ سب سے زیادہ تباہ کاری گلگت اور بلتستان اور جنوبی پنجاب میں ہوئی ہیں۔ ابھی تک سیلابی ریلہ سندھ میں داخل نہیں ہوا تاہم گدو اور سکھر بیراج میں پانی کی سطح بلند ہورہی ہے اور ایک آدھ دن میں چار لاکھ کیوسک سے زیادہ پانی ان دونوں بیراج سے گزرے گا۔ گمان ہے کہ سندھ کی حکومت اور خصوصاً محکمہ آبپاشی اس بار زیادہ بہتر تیاری کی ہوگی تاکہ سیلاب سے تباہ کاریاں کم سے کم ہوں، خصوصاً جانی نقصان نہ ہو ۔ تمام خطر ناک علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی کرائی جائے اور مال مویشی ،چارہ اور خوراک کو محفوظ ترین مقامات پر منتقل کیاجائے تاکہ نقصانات کم سے کم ہوں اور لوگوں کیلئے ذرائع زیست ہر حال اور ہر شکل میں موجود ہوں ۔ گزشتہ سالوں بڑے بڑے جاگیرداروں اور زمینداروں کی وجہ سے لوگوں کو قدرتی آفات سے زیادہ نقصان پہنچا ۔ بعض مقامات پر طاقتور عناصر نے بند توڑے اورسیلابی ریلے کا رخ تبدیل کیا جس کی وجہ سے لاکھوں افراد متاثر ہوئے جن میں سے بعض ابھی تک بے سرو سامان ہیں ۔ حکومت نے ان کی کوئی مدد نہیں کی اور ان کا ہر چیز تباہ و برباد ہوگیا ۔ وہ اپنی زمینیں دوبارہ آباد نہ کر سکے ۔ یہ حکومت وقت کی نا اہلی کی بد ترین مثال ہے ۔ اس بار حکومت اس بات کی یقین دہانی کرائے کہ طاقتور افراد سیلابی ریلوں کا رخ تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے اور سیلابی ریلوں کو بغیر کسی دراندازی کے گزرنے دیں گے تاکہ عام آبادی، لوگ اور شہر و قصبے تباہی اور بربادی سے بچ جائیں ۔ سیلاب کے زمانے میں صحت کے محکمے کے افسران کو چاک و چوبند رہنا چائیے تاکہ کسی بھی علاقے یا خطے میں وبائی امراض نہ پھیل سکیں بلکہ عام بیماریوں کا علاج بھی صوبائی محکمہ صحت کے حکام کریں کیونکہ غریب لوگوں کے پاس علاج معالجہ کے لئے رقوم اور وسائل نہیں ہیں ۔اسی طرح جانور ‘ مال مویشی کی دیکھ بھال کے مناسب انتظامات کیے جائیں کیونکہ غریب لوگوں کا اثاثہ صرف مال مویشی ہیں اور لوگ صرف دودھ پی کر زندہ ہیں ۔ ان سے زندگی کا حق نہ چھینا جائے اور مال اور مویشی کی دیکھ بھال مناسب انداز میں کی جائے ۔یہاں یہ بات یاد دلانا ضروری ہے کہ گزشتہ سالوں کی سیلاب اور بارشوں سے تباہ ہونے والے پل ‘ سڑکیں ‘ نہریں ‘ دوبارہ تعمیر نہیں کی جا سکیں ۔ دوسرے الفاظ میں حکومت اور ریاستی ادارے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو میں ناکام رہے بلکہ گزشتہ سیلابوں اور بارشوں سے جو تباہیاں ہوئیں ان کو پرانی حالت میں بحال نہ کرسکے۔ اس میں بلوچستان اور سندھ کے نہری نظام کو شدید نقصان پہنچا اور ان کی ابھی تک تلافی نہ ہو سکی ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچستان کی حکومت ‘ سڑکوں ‘ پلوں گزر گاہوں ‘ اسکولوں ‘ سرکاری عمارتوں کی بحالی کاکام مکمل کرے اور اپنی ریاستی ذمہ داریاں پوری کرے ۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وفاقی حکومت نے بلوچستان کے عوام کے ساتھ اچھا اور بہترسلوک نہیں کیا خصوصاً ہر قدرتی آفت کے بعد بلوچستان کے عوام کو ان کے حال پر جان بوجھ کر چھوڑ دیا گیا۔ ایسا لگتاہے کہ بلوچستان اس ملک کا حصہ نہیں، نقصانات کی تلافی ان لوگوں کا حق نہیں ۔ گزشتہ بارہ سالوں میں بلوچستان کو دس سے زیادہ بڑے قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور کسی بھی موقع پر حکومت بلوچ عوام کے امداد کو نہیں آئی ۔ ہر بار چند کروڑ روپے کا اعلان کرکے وفاق نے راہ فرار اختیار کی جو ریاست پاکستان کی جانب سے انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت ہے، یہاں تک کہ غیر ملکی امداد پربھی ہمیشہ پابندی لگائی گئی ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے بین الاقوامی امداد کی اپیل کی کہ آواران اور ملحقہ علاقو ں میں زلزلے سے تباہی آئی ہے ۔ وفاق نے اس کو نفرت کے ساتھ مسترد کردیا ۔ ایک وفاقی وزیر کے ذریعے بیس کروڑ روپے کے امداد کا اعلان کرکے پوری وفاقی حکومت غائب ہوگئی ۔