|

وقتِ اشاعت :   July 25 – 2015

بعض حضرات کو اس پر اعتراض ہے کہ لوگ افغان مہاجرین کی فوری واپسی کا مطالبہ کیوں کررہے ہیں۔ ان میں سب سے آگے بلوچستان نیشنل پارٹی اور اس کے رہنماء ہیں وہ اپنے مطالبے میں اس حد تک گئے کہ انہوں نے افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کی بھی مخالفت کردی اور یہ مطالبہ کردیا کہ پہلے افغان مہاجرین کو ان کے وطن واپس عزت اور احترام سے بھیجا جائے اور اسکے بعد بلوچستان میں مرد م شماری کی جائے۔ بعض اکابرین کا خیال ہے کہ افغان مہاجرین اپنے وطن ( بلوچستان)میں ہیں غیروں کی سرزمین پر نہیں ہیں۔ یہی بات یہ اکابرین اسلام آباد ‘ قومی اسمبلی کے اجلاس ‘ لاہور ‘ پشاور اور دوسرے شہروں میں نہیں کہہ سکتے فوراً ان پر ملک دشمن ہونے کا لیبل لگ جائے گا یہاں وہ اپنے حلقہ انتخاب کے لوگوں اور اپنی پارٹی کے کارکنوں کو خوش کرنے کے لئے کہتے ہیں ۔ اسلام آباد میں وہ سب سے بڑے محب وطن پاکستانی ہیں اور مقتدرہ کے قریب ہیں کیونکہ دونوں کا مخالف صرف ایک گروہ ہے اس لئے یہ ایک دوسرے کا لحاظ کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ۔ وفاقی حکومت نے اس وقت اپنے شدید رد عمل کا اظہار کیا جب اقوام متحدہ کے چند ایک اہلکاروں نے یہ مشورہ دیا کہ افغان مہاجرین کو مستقل طورپر پاکستان میں رہنے دیا جائے ۔ حکومت پاکستان کی مخالفت کے بعد صرف مزید دو سال کے لئے افغان مہاجرین کو پاکستان میں رہنے کی اجازت دی ہے جو اس سال دسمبر میں ختم ہورہی ہے ۔ حکومت کی یہ کوشش ہے کہ افغان مہاجرین کے ساتھ ساتھ غیر قانونی تارکین وطن کو بھی افغانستان واپس روانہ کیاجائے ۔ پہلی وجہ سیکورٹی کے خدشات ہیں اور افغان تقریباً ہر بڑی دہشت گردی کے واقعات میں ملوث پائے گئے ۔ اس لئے وہ پاکستان کی ریاست اور عوام کے لئے ایک سیکورٹی رسک ہیں جس کے لئے ان کو پورے ملک سے نکالنا ضروری ہے۔ بلوچستان اس میں بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس کی طویل سرحد افغانستان سے ملتی ہے ۔ دوسری وجہ اکثر افغان مختلف جرائم میں ملوث ہیں ۔ ان میں ٹارگٹ کلنگ ‘ اغواء برائے تاوان ‘ ڈاکے ‘ چوری ‘ قتل ‘ منشیات کی اسمگلنگ اور منشیات فروشی ان سب پر افغانوں کی اجارہ داری ہے۔ کم سے کم سندھ اور بلوچستان میں ‘ آخری بات معاشی ہے حکومت پاکستان اور عوام نے لاکھوں افغانو ں کا معاشی بوجھ چالیس سال سے برداشت کیا ۔ اب ملک کے معاشی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ان کو مزید مہمان رکھاجائے معاشی حالات اس بات کا شدت کے ساتھ تقاضہ کرتے ہیں کہ ان کو جلد سے جلد افغانستان واپس بھیجا جائے اور ان کو مزید توسیع نہ دی جائے سیکورٹی کے حوالے سے اب یہ بات بالکل عیاں ہوگئی ہے کہ افغانستان نے آج کل طالبان دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے ۔ اور اکثر طالبان ‘ فاٹا اور خصوصاً وزیرستان سے فرار ہو کر افغانستان میں پناہ لیتے ہیں جہاں پر انہوں نے اپنے کیمپ بنائے ہیں اور ائے دن پاکستان کی سرحدوں کی نہ صرف خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ سیکورٹی افواج پر مسلسل فائرنگ اور شیلنگ کرتے رہتے ہیں ۔وزیرستان کے واقعہ میں جس میں حکومت پاکستان نے یہ کوشش کی کہ باب دوستی تعمیر کی جائے افغان سیکورٹی فورسز نے پاکستانی افواج اور اہلکاروں پر حملہ کیا جوابی فائرنگ پر افغانوں نے خاموشی اختیار کر لی ۔ اس واقعہ سے یہ اندازہ لگانا سیاسی مبصرین کے لئے مشکل نہیں ہے کہ آج کل کے حالات میں افغانستان سرحدی تنازعہ دوبارہ کھڑا کرنا چاہتا ہے ۔ ڈیورنڈ لائن پر افغانستان اپنا دعویٰ دوبارہ زندہ کرنا چاہتاہے۔ شاید محمود خان اچکزئی نے بھی اس کی حمایت کردی اور یہ کہا کہ افغان مہاجرین اپنی سرزمین (افغانستان ) میں ہیں پاکستان یا بلوچستان میں نہیں ہیں لہذ اکسی کو یہ حق نہیں کہ وہ افغانوں کو یہاں سے نکالیں ۔ اس سے قبل محمود خان مقتدرہ پاکستان کے قریب تھے اورانہوں نے اپنے بھائی کو گورنر اور دوسرے بھائیوں کو وزیر بنایا ۔ بلوچستان کے بجٹ کے نصف پر اسی بنیاد پر دعویٰ کیا۔ شاید اب انہوں نے اپناٹریک تبدیل کیا ہے اور وہ اب پاکستانی مقتدرہ کے حامی نہیں، افغانستان کے دوبارہ حامی بن گئے ہیں ۔