زیر زمین پانی کا مسئلہ گزشتہ دہائیوں سے پریشانی کا باعث بنتا آیا ہے گزشتہ حکومتوں نے اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا اور اس کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کا سب سے بڑا مسئلہ زیر زمین پانی کا بے دریغ استعمال ہے ۔ دیکھا گیا ہے کہ ٹیوب ویل 24گھنٹے چلتے رہے اور پانی ضائع ہوتا رہا ۔ اشخاص نے بجلی کے بل دینے بند کیے اور صوبائی اور وفاقی حکومت کو بلیک میل کیا کہ وہ اربوں روپے کی سالانہ سبسڈی دے۔ سب سے پہلے تو ٹیوب ویل کے استعمال کو ایک ضابطے کے تحت کیا جائے ، یہ اس وقت ہوسکتا ہے جب ٹیوب ویل مالکان کو مجبور کیاجائے کہ وہ بجلی کے بل مکمل طورپر خود ادا کریں تاکہ ان پر ذمہ داری عائد ہو کہ پانی اور بجلی ان کے لیے مفت نہیں۔ جب دوسرے شہریوں کو یہ حق حاصل نہیں تو زمینداروں کو خصوصی طورپر یہ حق کیوں دیا جائے ۔آزاد ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ ساری زرعی پیداوار کی قیمت ان چند اضلاع میں صرف ایک آدھ ارب ر وپے ہے جبکہ بجلی کی سبسڈی اس سے کئی گناہ زیادہ ۔ اگر کسی کاشت کار کو مالی فائدہ نہیں تو وہ کوئی اور روزگار تلاش کرے، ضروری نہیں کہ ان کو ریاست سبسڈی دے ، بجلی اور پانی مفت فراہم کرے۔ جہاں تک مجموعی طورپر بلوچستان کا تعلق ہے ،زیر زمین پانی کے وسائل پر توجہ اس وجہ سے نہیں دی گئی کہ یہاں پر طویل منصوبہ بندی کا کوئی تصور نہیں ۔ ایم پی اے حضرات سالانہ اپنا بجٹ اور فنڈ لے جاتے ہیں اور سرکاری خزانے میں جمع تمام رقم صرف 65اراکین اسمبلی میں تقسیم ہوجاتی ہے ۔ اگر یہ نہ کیاجائے تو اقلیتی وزیراعلیٰ ایک دن بھی حکومت نہ کر سکیں ، وہ مجبور ہیں کہ خزانہ کو 65اراکین اسمبلی میں تقسیم کیا جائے، اس کے بعد ان سے نہ پوچھا جائے کہ رقم کہاں خرچ ہوئی، اس لئے غریب ایم پی اے صاحبان آئے اور ارب پتی بن کر چلے گئے ۔ جہاں تک حکومت کی یہ رائے ہے کہ ’’ چیک ڈیم ‘ بنائے جائیں تو اس سے وسائل ضائع ہوجائیں گے کیونکہ دنیا بھر میں ’’ چیک ڈیم‘‘‘ کا نظام مکمل طورپر ناکام ہوگیا اور اس سے زیر زمین پانی کے ذخائر میں اضافے کا امکان بالکل نہیں ہے ۔
ہم یہ گزارش کرتے ہیں کہ تمام اسکیموں کو بند کیا جائے اور ان کی جگہ پانی کے چھوٹے بڑے ذخائر تعمیرکیے جائیں یا عام ڈیم تعمیر کیے جائیں تاکہ لوگ زیر زمین پانی استعمال نہ کریں بلکہ ڈیموں میں جمع پانی استعمال کریں۔ ڈیم اور پانی کے ذخائر اس بات کی گارنٹی ہوں گے کہ زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو ۔ویسے بھی حکومت پاکستان کی ترجیحات میں یہ کبھی بھی شامل نہیں رہا کہ بلوچستان میں پانی کے وسائل کو ترقی دیں اور صوبے میں زیادہ سے زیادہ ڈیم بنائیں تاکہ دو کروڑ ایکڑ قابل کاشت زمین کو زیر کاشت لایا جائے ۔بلوچستان میں گزشتہ 67سالوں میں دو ڈیم تعمیر ہوئے، ایک حب ڈیم صرف کراچی کی آبادی کی پینے کے پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اور دوسرا میرانی ڈیم ‘ اس کی کہانی طویل ہے ۔ 14سال تک یہ پروجیکٹ منصوبہ بندی کے سرد خانے میں بند رہا اور افسران تقریباً متفق تھے کہ یہ ڈیم نہ بنے۔ ان کا سوال تھا کہ پانی کہاں ہے کہ میرانی ڈیم بنایا جائے، اللہ بھلا کرے جنرل مشرف کا کہ اس کے حکم سے ڈیم بن گیا۔ ڈیم بننے کے بعد اس خطے میں جو سیلاب آیا اس کا اندازہ سات لاکھ کیوسک تھا یعنی آج کے سیلاب سے زیادہ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بڑے پیمانے پر پانی ذخیرہ کرنے کیلئے بڑے چھوٹے اور میڈیم سائز کے ڈیم بنائے جائیں 54ارب روپے کا منصوبہ ،سب کا سب پیسہ ایک سال وہاں خرچ کیاجائے تو بلوچستان دو کروڑ ایکڑ زمین اضافی آباد کر سکے گا اور بلوچستان خطے کا Food and Fruit Basketبن جائے گا۔ نہ صرف یہ اپنی ضروریات پوری کرے گا بلکہ اناج اور پھل دوسرے ممالک کو بر آمد کرے گامگر شرط یہ ہے کہ 54ارب روپے 65اراکین اسمبلی میں تقسیم نہ کیے جائیں ۔