|

وقتِ اشاعت :   July 27 – 2015

آئے دن حکومتی اہلکار اور سیاستدان عوام الناس کو یہ تسلیاں دیتے نہیں تھکتے کہ صرف اور صرف گوادر پورٹ کی تعمیر سے پاکستان کے عوام کی قسمت بدل جائے گی ۔ اور اب گوادر کی بندر گاہ کی جگہ گوادر ‘ کاشغر روٹ نے لے لیا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے گوادر پورٹ کی تعمیر کاکام جہاں رکا پڑا تھا آج بھی اسی مقام پر ہے ۔ میڈیا کا اتنا زبردست پروپیگنڈا کیا گیا کہ پنجاب اور دور دراز علاقوں میں رہنے والوں نے گوادر میں پلاٹ خریدے اوریوں انکے اربوں روپے ڈوب گئے ۔ گواد رپورٹ کی تعمیر، ترقی اور توسیع پر کوئی کام نہیں ہوا، کسی بھی مقامی کمپنی نے یہ خواہش ظاہر نہیں کی کہ وہ اپنا مال دوسرے ممالک کو گوادر پورٹ کے ذریعے بھیجے گااور نہ بین الاقوامی کمپنیوں نے گوادر پورٹ کو آج تک استعمال میں لانے کی خواہش ظاہر کی ۔ یہ حیرانی کی بات ہے کہ اسی میڈیا پروپیگنڈے کے دوران گوادر سے پینے کا پانی ختم ہوا ۔ پاکستان نیوی کے جہازوں نے کراچی سے پینے کا پانی گوادر پہنچایا ۔ پینے کے پانی کیلئے ایک بین الاقوامی ادارے کی تعاون سے آکڑہ کور ڈیم بنایا گیا ۔ وہ بھی وفاقی منصوبہ ساز اور افسر شاہی کی کرپشن اور نا اہلی کی وجہ سے ناکام ہوگیا ۔ گوادر میں پینے کو پانی نہیں ’ بجلی ابھی تک ایران سے نہیں خریدی جا سکی ۔ بندر گاہ کیلئے جدید آلات نہ لگائے گئے اور نہ اس سے متعلق معاہدے ہوئے ۔ بندر گاہ کے لئے بہت بڑے پیمانے پر انسانی وسائل درکار ہیں ان کے رہنے ‘ کھانے ‘ پینے کا کوئی بندوست نہیں۔ منصوبہ سازوں کو یہ ابھی تک معلوم نہیں کہ اس کو کس مقام پر پاکستان کے ریلوے نظام سے جوڑا جائے ،بندر گاہ کی تعمیر کے وقت بین الاقوامی معیار کا ائر پورٹ بنانے کا اعلان کیا گیا تھا ۔ بیس سال بعد بجٹ میں گوادر ائر پورٹ کی تعمیر کے لئے کچھ رقم رکھی گئی اسی طرح بندر گاہ کے ریلوے نظام میں ایک کنٹینر یارڈ بنانے کیلئے بھی رقم مختص کردی گئی غرض یہ کہ گوادر پورٹ کا دور دور تک پتہ نہیں ۔ مسلم لیگ ن نے اقتدار میں آنے کے بعد گوادر ‘ کاشغر روٹ کا شوشہ چھوڑا ‘ہماری ناقص معلومات کے مطابق گوادر کوکاشغر اور اس کے روٹ کی ضرورت نہیں ۔ البتہ چین کو کاشغر روٹ کی ضرورت ہے جو آخر کار پنڈی پر ختم ہوجاتا ہے ۔ شاید اسی روٹ کے لئے پنجاب نے اربوں ڈالرکے منصوبے بنائے اور بیرونی ذرائع اس کے لیے رقوم اور وسائلمہیا کریں گے۔ چین کو سنکیانگ میں مشکلات کا سامنا ہے اور چین اس خطے کو کھولنا چاہتا ہے ۔ اس کا فطری تعلق پنجاب کے شمالی علاقہ جات ہیں بلوچستان نہیں ۔ لہذا گوادر کاشغر روٹ کو صرف اور صرف ایک پروپیگنڈہ سمجھا جائے اس سے زیادہ نہیں جیسا کہ گوادر کی بندر گاہ گزشتہ بیس سالوں سے آج تک تعمیر نہیں ہوسکا ۔ اس کے مقابلے میں چاہ بہار کی بندر گاہ جو صرف 72کلو میٹر کے فاصلے پر ہے مکمل ہو ا چاہتا ہے، جاپان اس پر بیس لاکھ ٹن کا ایک اسٹیل مل تعمیر کرے گا۔ کراچی کے اسٹیل مل کی استطاعت صرف ایک لاکھ ٹن ہے ۔ ایرانی حکومت چاہ بہار میں 6.5ارب ڈالر کا پیٹرو کیمیکل پلانٹ لگا رہا ہے ۔ اگلے سال سے چاہ بہار کی بندر گاہ سے صرف راہداری کی مد میں دس ارب ڈالر کمائے گا۔ چاہ بہار کی بندر گاہ گوادر کی بندر گاہ کے بعد شروع ہوئی چاہ بہار آج ایران کا ایک بہت بڑا پورٹ سٹی ہے ۔ ویسے گوادر چین کے خطے کا حصہ نہیں ہے یہ ساحل مکران کا حصہ ہے جو بندر عباس یا آبنائے ہرمز سے شروع ہوتا ہے اور کراچی پر ختم ہوجاتا ہے ۔ یہ تین ہزار کلو میٹر سے زیادہ ہے اور مکران کے سائل پر درجنوں بندر گاہیں ہیں یہ پرشین گلف کے دہانے پر ہیں۔ اس ساحل کا شمالی پاکستان سے تعلق بنتا نظر نہیں آتا ۔ شمالی پاکستان اور چین کی ضروریات کو صرف کراچی پورٹ اور پورٹ قسم پورا کرتا ہے ۔ لہذا لوگوں کی آنکھوں میں دھول نہ جھونکا جائے ۔ آپ بلاشک کا شغر ‘ پنڈی روٹ بنائیں ۔ اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہے گوادر پورٹ کی منصوبہ بندی کی بنیاد یہ تھی کہ افغانستان اور دوسرے وسط ایشیائی ممالک کو بندر گاہ کی سہولیات فراہم کی جائیں بندر عباس چونکہ وسط ایشیاء سے 2800کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اس لئے گوادر کی اہمیت ہوگی جو صرف 1400کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے ۔ حکومت پاکستان نے بعض وجوہات کی بنیاد پر گوادر پورٹ کی تعمیر میں سست رفتاری دکھائی اور جان بوجھ کرجبکہ ایران نے چاہ بہار کی تعمیر بھارت کے ایما پر کی۔ اب بھارت چاہ بہار کی تعمیر و ترقی پر 195ملین ڈالر یعنی 19کروڑ 50لاکھ ڈالر خرچ کررہا ہے ۔