|

وقتِ اشاعت :   August 2 – 2015

صوبائی حکومت نے یہ اعلان کردیا ہے کہ صوبہ میں ایک نئی فورس بنائی جارہی ہے جو 1100اہلکاروں پر مشتمل ہوگی شاید اس کا کام گوادر اور اس کے گرد و نواح کی حفاظت ہوگی،اس نئی فورس کے قیام سے صوبائی خزانے پر دو ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا اس لئے صوبائی حکومت نے وفاق سے اس فورس کے قیام کی خاطر مدد کی درخواست کی ہے۔ ملک میں سیکورٹی فراہم کرنے کے لئے مسلح افواج ‘ پیرا ملٹری فورسز ‘ پولیس ‘ لیویز اور بلوچستان کانسٹیبلری کی موجودگی میں نئی فورس کی کیا ضرورت ہے۔ بلوچستان کے عوام کی سیکورٹی کے لئے موجودہ سیکورٹی فورسز کافی ہیں بلوچستان کے عوام کو ایک نئی فورس کی ضرورت ہے نہ ہی عوام الناس نے کبھی یہ مطالبہ کیا ہے کہ ان کی سیکورٹی کے لئے موجودہ فورسز ناکافی ہیں اور ایک نئی فورس کا قیام عمل میں لایا جائے۔ عوام الناس کی جانب سے اس قسم کا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آیا لہذا حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے کہ گوادر جیسے ایک چھوٹے سی شہر کے لئے اتنی بڑی فوج اور اتنی بڑی رقم خرچ کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ حکومت بلوچستان کو دفاعی تجزیہ نگاروں نے یہ مشورہ دیا ہے کہ گوادر اور اس کے گرد ونواح کے لئے ایک نئی فورس بنائی جائے ۔ موجودہ بلوچ آبادی ‘ خصوصاً ماہی گیر اپنے وطن میں ہزاروں سالوں سے رہ رہے ہیں اور انہوں نے اپنے وطن کا خود دفاع کیا ہے ان کی دفاع کی وجہ سے پورا ساحل مکران ‘ بندرعباس سے لے کر کراچی تک امن کا گہوارہ رہا ہے ان کو کسی ملک سے خطرات لاحق نہیں اور نہ ہی کسی ملک نے ساحل مکران پر دعویٰ کیا ہے۔ جہاں تک امن امان کا معاملہ ہے پولیس ‘ لیویز ‘ بلوچستان کانسٹیبلری کافی ہے ان کی مدد کے لئے ایف سی ‘ میری ٹائم سیکورٹی ایجنسی ‘ کوسٹ گارڈز اور سب سے بڑھ کر فوج اور نیوی موجودہے ۔ موجودہ بلوچ آبادی کو کسی اضافی سیکورٹی کی ضرورت نہیں ہے اس لئے سالانہ دو ارب روپے بلوچستان کی معاشی ترقی اور بلوچ عوام کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر خرچ کیے جائیں۔ بلوچستان کے سالانہ میزانیہ میں صوبے کی مشکل صورت حال کا تذکرہ صاف اور واضح الفاظ میں موجود ہے ، اس سال خسارے کا بجٹ ہے ۔ خسارہ بھی 26ارب روپے کا ۔ حالیہ دنوں میں اس خسارے میں چار ارب روپے کا مزید اضافہ ہوگیا ہے اور یہ خسارہ تیس ارب تک پہنچ گیا ہے ۔ حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے کہ اس خسارے کو کس طرح سے پورا کیاجائے گا۔ وفاقی حکومت کا رویہ ہمیشہ سے معاندانہ ر ہا ہے اٹھارویں ترمیم کے تحت جو شعبے صوبوں کو دئیے گئے ہیں ان کے اثاثے اور اخراجات نہیں دئیے گئے اس لیے بجٹ کا خسارہ بڑھ گیا ہے ۔ ادھر تنخواہوں میں اضافہ ‘ تعلیمی اخراجات ‘ قرضوں کی ادائیگی اور سود کی ادائیگی سب مل کر صوبے کی ایک بھیانک صورت حال کی منظر کشی کررہے ہیں ۔ادھر ترقی بجٹ ایم پی اے حضرات اور ان کی ذاتی اسکیموں کے لئے ہیں اس سے نہ صوبائی حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوگا اور نہ ہی لاکھوں بے روزگاروں کو روزگار ملنے کی امید کی جا سکتی ہے اس سال بھی ترقیاتی بجٹ ہر سال کی طرح ضائع ہوجائے گا ایسی معاشی صورت حال میں ایک شہر اور اس کے گردونواح کے لئے نئی فورس کا قیام کوئی معنی نہیں رکھتاا ور پھر عوام الناس کو بھی اس کی ضرورت نہیں، طاقتور طبقوں نے یہ ضرورت زبردست اور خیالی وجوہات کی بناء پر پیدا کی ہے زمینی حقائق سے اسکا تعلق نہیں ہے ۔ ہم ان کالموں میں پولیس ‘ لیویز اور بلوچستان کانسٹیبلری کو زیادہ موثر اور کارگر بنانے پر زور دیتے آرہے ہیں انکو اتنا تربیت یافتہ اور جدید بنایا جائے کہ صوبے کو وفاقی افواج کی ضرورت نہ پڑے اور مقامی فورسز تمام مشکلات کا خود مقابلہ کر سکیں ۔یہ دو ارب روپے خرچ کرنے ہی ہیں تو اس سے پولیس ‘ لیویز اور بلوچستان کانسٹیبلری کو زیادہ فعال بنایا جائے ۔