بلوچی اکیڈمی ایک منفرد قومی ادارہ ہے جو بلوچی زبان اور بلوچی کلچر کے لیے بھر پور خدمات انجام دے رہا ہے ۔ یہ ادارہ چند معروف اور مستند دانشوروں ‘ شاعر اور ادیبوں نے 1950 کی دہائی میں قائم کیاتھا۔ مالی اور دیگر مشکلات کے باوجود بلوچی اکیڈمی نے بلوچی زبان کی ترویج میں زبردست کردار ادا کیا ۔اب تک اس ادارہ نے سینکڑوں کتابیں شائع کیں۔ یہ ایک واحد ادارہ ہے جس میں بلوچ سرزمین کے ہر خطے کے لوگ خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ان تمام معروف دانشوروں نے بہترین مضامین اور کتابیں لکھیں۔ شاعروں کے مجموعے بڑی تعداد میں بلوچی اکیڈمی نے شائع کیے ۔ تقریباً ہر سال ملکی و بین الاقوامی سطح پر بلوچی اکیڈمی کانفرنسز اور سیمینار زمنعقد کرتی رہتی ہے جس میں دنیا بھر سے بلوچ اوربین لااقوامی معیار کے دانشور حصہ لیتے رہتے ہیں ۔ حالیہ سالوں میں کئی ایک کانفرنس اور سیمینار کوئٹہ میں بلوچی اکیڈمی کے زیر اہتمام منعقدہوئے جس میں ملک کی اعلیٰ ترین شخصیات نے شرکت کی۔ بلوچی اکیڈمی نے ان بلوچ دانشور ‘ شاعر اور ادیبوں کی کتابیں اور مجموعے بھی شائع کیے جو ایرانی بلوچستان ‘ افغان بلوچستان ‘ سندھ اور پنجاب کے بلوچی بولنے والے علاقے، گلف ممالک اوریورپی ممالک میں موجود شاعر اور ادیب شامل ہیں ۔بلوچی ادب اور شاعری کا ملک میں سب سے بڑا مرکز بلوچی اکیڈمی ہے جہاں پر دوسری زبانوں کے دانشور ‘ شاعر اور ادیب اکثر آتے رہتے ہیں اور خیالات کا تبادلہ کرتے رہتے ہیں ۔بلوچی اکیڈمی کا سب سے بڑا کارنامہ بلوچی ڈکشنری کی اشاعت ہے ۔ اس میں حکومت بلوچستان کا زبردست تعاون شامل ہے جس کی مالی معاونت سے اتنی بڑی اورضخیم ڈکشنری شائع ہوئی، اس کے چیف ایڈیٹر میر جان محمد دشتی ہیں جو ملک کے مشہور دانشور اور ادیب ہیں۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھی ہیں ان کے ساتھ ایک بہت بڑی ٹیم نے ان کی مدد کی جن کا تعلق بلوچ سرزمین کے مختلف خطوں سے تھا۔ سندھ اور پنجاب سے جہاں سے خاص معلومات اکٹھی کی گئیں اور ڈکشنری کی شکل میں پیش کرنے اور چھاپنے میں 15سال کا طویل عرصہ لگا۔ سب سے دلچسپ بات، ڈکشنری کی کم سے کم قیمت رکھی گئی اور اس کا مقصدصرف یہ ہے کہ غریب طلباء اور دوسرے لوگ اس کو آسانی سے خرید سکیں ۔ڈکشنری کی باقاعدہ رونمائی سے قبل نوے فیصد اسٹاک فروخت ہوگیا ہے ۔ اب اکیڈمی کو اس کا نیا ایڈیشن چھاپنا پڑے گا اور جلد چھاپنا پڑے گا اس کے لئے قوی امید ہے کہ پہلے کی طرح حکومت بلوچستان اس کی اشاعت کے لیے بھرپور تعاون کرے گی تاکہ اس کا دوسرا ایڈیشن جلد سے جلد چھپ کر بازار میں آئے اور ملک کے ہر ایک حصے میں یہ نایاب ڈکشنری دستیاب ہو۔ ایک سال کے عرصے میں بلوچی اکیڈمی نے پچیس نئی کتابیں چھاپی ہیں اور آئندہ سال کے لئے 16کتابوں کو چھاپنے کیلئے منتخب کر لیا گیا ہے۔ اس طرح سے بڑی تعداد میں کتابیں اگلے سال چھپ جائیں گی ۔ بلوچی اکیڈمی کا یہ جائز مطالبہ ہے کہ بلوچی زبان کی اتھارٹی قائم کی جائے اور بلوچی اکیڈمی کو بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ میں مناسب نمائندگی دی جائے تاکہ بلوچی زبان کے نفاذ کے عمل کوبذریعہ تعلیم تیز تر کیا جائے ۔ اسی طرح ملک کے سرکاری ٹی وی پر بلوچی زبان کو جائز مقام دیاجائے اور اسلام آباد اور دوسرے سینٹروں سے بلوچی پروگرام نشر کیے جائیں ۔اسی طرح پنجاب اور سندھ میں رہنے والے بلوچوں کیلئے کراچی ‘ لاہور ‘ ملتان اور حیدر آباد سے ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرام نشرکیے جائیں تاکہ بلوچی زبان بولنے والے بلوچوں کا مطالبہ پورا ہوجائے ۔ افسوس کی بات ہے کہ بعض عناصر بلوچی اکیڈمی کو اس کا جائز مقام دینے سے انکار کررہے ہیں اور بعض سرکاری اہلکار کچھ دوسرے اداروں کو بلوچی اکیڈمی کے برابر لانے کی کوشش کررہے ہیں جن کا کردار زیرو ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اور ان کوجتنی ہی امداد دی جاتی ہے وہ قومی دولت کا ضیاع ہے ۔کسی بھی اکیڈمی کی افادیت کا معیار اس کی کارکردگی ہے ۔ بلوچی اکیڈمی کے کردار کا بلوچستان میں کوئی ثانی نہیں ہے ۔
بلوچی اکیڈمی‘ ایک منفرد قومی ادارہ
وقتِ اشاعت : August 4 – 2015