سالوں بعد فوج کے سربراہ نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ فوج ‘ عوام اور حکومت دہشت گردوں اور منشیات کے اسمگلروں کا گٹھ جوڑ توڑے گی ۔اس میں دو رائے نہیں ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں زبردست وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ وسائل دہشت گردوں کو صرف اور صرف منشیات کے کاروبار کرنے والے اسمگلر زفراہم کرسکتے ہیں ،باقی شعبوں سے ان اخراجات کو پورا کرنا ممکن نہیں ہے بلکہ معیشت کے تمام شعبے دہشت گردی کا شکار ہیں ،وہ کیونکر ان کی مالی معاونت کریں گے۔ اس بیماری کو پھیلانے میں جنرل ضیاء کی حکومت کا ہاتھ تھا۔ امریکی سی آئی اے کے تعاون سے منشیات کی رقم کو روسی افواج کے خلاف جنگ میں استعمال کیا گیا ۔ حکومت کی سرپرستی تھی کہ منشیات پاکستان سے برآمد ہوتے تھے جوپیدا افغانستان میں ہوتا ہے ۔پہلے مرحلے میں منشیات کی تمام فیکٹریاں پاکستان کی سرزمین پر بنائی گئیں تھیں بعد میں جب دنیا بھر میں بہت زیادہ شور ہوا اور اقوام عالم نے یہ کوشش کی کہ پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں ۔ تو فوراً منشیات کے تمام فیکٹری افغانستان کے اندر منتقل کردئیے گئے ۔ 1980کی دہائی میں سب سے زیادہ شور ایران نے مچایا اور دعویٰ کیا کہ افغانستان سے منشیات پاکستان کے راستے ایران لائی جارہی ہیں ایران نے اس کو ختم کرنے اور منشیات کی اسمگلنگ کو روکنے کے لئے زبردست قربانیاں دیں ۔ ایران کا دعویٰ تھا کہ منشیات فروشوں اور اسمگلروں کے درمیان جھڑپوں میں اس کے تین ہزار سے زائد فوج اور سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ۔دوسری جانب جنرل ضیاء کی حکومت مجاہدین کے لئے فنڈ جمع کرنے کی خاطر منشیات کے اسمگلنگ کی سرپرستی کرتی رہی ۔ مجاہدین نے افغانستان پر تقریباً چھ سال حکومت کی اور انہوں نے بھی منشیات کی لعنت کو ختم کرنے کے لئے کچھ نہیں کیا بلکہ اس کو ملک کے لئے زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ بنا دیا، اسی طرح کی پالیسی طالبان نے اپنائی ۔ اکثر مبصرین کو یقین ہے کہ افغان اور پاکستانی طالبان اپنی جنگ صرف منشیات سے کمائی ہوئی دولت سے لڑ رہے ہیں ۔ اتنی بڑی دولت اور وسائل معیشت کے دوسرے شعبوں سے حاصل نہیں ہوسکتا ۔ افغانستان میں تو اس کا تصور ممکن نہیں کہ جنگجو اتنے وسائل پیدا کر سکتے ہیں کہ بیک وقت دو ریاستوں ‘ پاکستان اور افغانستان سے لڑیں۔ گزشتہ روز ایران کے کمانڈر نے دعویٰ کیا کہ افغانستان سے 65فیصد منشیات پاکستان کے راستے ایران میں داخل ہورہی ہے اور ایران اس جنگ میں سب سے آگے ہے ۔ ایران نے 85فیصد منشیات کو پکڑا ہے اور یہ دنیا میں ایک ریکارڈ ہے اور اگر پاکستان کی حکومت بھی اسی جذبہ کے ساتھ منشیات کے خلاف جنگ میں شریک ہوگیا تو یہ بات یقینی طورپر کہی جا سکتی ہے کہ دہشت گردوں کو شکست ہوگی اور جلد ہوگی ، اتنی جلد ہوگی کہ لوگ اس کا تصور بھی نہیں کر سکیں گے۔ البتہ حکومت اور حکومتی ادارے تمام کالی بھیڑوں پر نظر رکھیں اور یہ بات یقینی بنائیں کہ وہ منشیات فروشوں اور اسمگلروں کی پشت پنائی نہیں کر سکیں ۔ دوسری بات پولیس کے اہلکاروں کو ملک بھر میں یہ ہدایات دی جائیں کہ کچی آبادیوں میں منشیات کے تمام اڈے بند کردئیے جائیں اوران کو گرفتار کیاجائے تاکہ دہشت گرد منشیات فروخت کرکے وسائل دہشت گردی میں استعمال نہ کر سکیں ۔ اس سلسلے میں عوام الناس کا بھر پور تعاون حکومت اور حکومتی اداروں کو رہے گا کیونکہ پاکستان کا ہر باشندہ منشیات فروشی اور منشیات کے استعمال کے خلاف ہے اور اس کا جلد سے جلد خاتمہ چاہتا ہے ۔
دہشت گردوں اور منشیات کے اسمگلروں کا گٹھ جوڑ
وقتِ اشاعت : August 5 – 2015