وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک نے کہا ہے کہ اراکین اسمبلی قانون سازی کی طرف زیادہ توجہ دیں یہ فورم بنیادی طورپر قانون سازی کیلئے ہے ۔ مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ اس میں سوائے قانون سازی کے ہر موضوع پر بحث ہوتی ہے ۔ سب سے من پسند شعبہ پی ایس ڈی پی اور اس کے لیے رقوم مختص کرنا ہے ۔ خصوصاً ایم پی اے حضرات کی زیادہ دلچسپی ایم پی اے میں ہے ۔ اس لیے ہم ہمیشہ یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ ایم پی اے حضرات کوفنڈ نہ دیا جائے۔
جنرل ضیاء الحق نے ملک کے ساتھ یہ دشمنی کی کہ اسمبلی اراکین کی وفاداریاں خریدنے کے لئے ایم پی اے اور ایم این اے فنڈز کا اجراء کیا ۔ ایک طرف اس نے سیاست کو تجارت بنا دیا اور دوسری جانب اراکین کے ضمیر خرید لیے اور فنڈ‘ دے کر ان کو ’’ متحدہ مسلم لیگ ‘‘ محمد خان جونیجو والی میں شامل کر الیا ۔
انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر کرائے مگر انتخابات کے بعد مرکز اور چاروں صوبوں میں طاقتور ترین مسلم لیگ بن گئی ۔ ایم آر ڈی نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور میدان جنرل ضیاء کے لئے کھلا چھوڑ دیا گیا تھا ۔ انتخابات کے خاتمے کے ساتھ ایم این اے اور ایم پی اے فنڈز کا سلسلہ شروع ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انتخابات میں لوگ کروڑوں خرچ کرتے ہیں اور بعد میں کروڑوں کماتے ہیں مگر بعض زیادہ طاقتور لوگ اربوں روپے کماتے ہیں ،وہ نہ صرف فنڈز ہڑپ کرتے ہیں بلکہ دولت کمانے کے لئے سیاسی اور قانونی حیثیت کو استعمال کرتے ہیں بعض حضرات خصوصاً کرپٹ حضرات تو لاکھوں روپے کے پوشاک اور گھڑیاں پہنے ہوئے نظر آتے ہیں۔
کئی ایک وزراء کے ہاتھ میں دستی گھڑی کی قیمت بیس لاکھ روپے سے زیادہ ہے ۔ یہ سب خوشحالی ’’غلیظ دولت ‘‘‘ کی وجہ سے ہے۔ صرف دولت کمانے کی خاطر انتخابات میں سب سے زیادہ اہمیت مسلم لیگ اور پی پی پی کے ٹکٹ کی ہے ۔ جن کو یہ ٹکٹ مل گیا اس کو ارب پتی بننے کا لائسنس مل گیا ۔حالیہ سالوں میں متحدہ کا بھی یہی عالم تھا لوگ کلرک سے ارب پتی بن گئے ۔ ساری خرابی اس میں ہے کہ اراکین اسمبلی کے پاس ’’ جائز فنڈز ،ناجائز استعمال کے لئے ہے ‘‘ ترقیاتی اسکیموں کے لئے پورے ملک میں طویل مدتی منصوبہ بندی کی جائے اور ان منصوبوں پر عمل سرکاری اور متعلقہ ادارے کریں جو کرپشن اور دوسری بے قاعدگیوں کے ذمہ دارہوں ۔
بلوچستان کا المیہ یہ ہے کہ ترقیاتی عمل ایم پی اے حضرات کے حوالے ہے ۔ ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ گزشتہ تیس سالوں میں صوبائی سطح پر ایک بھی قابل ذکر اسکیم یا پراجیکٹ نظر نہیں آتا جو کسی ایم پی اے نے مکمل کیا ہو ۔ البتہ وفاق کے اکثر پروجیکٹ نظر آتے ہیں ان میں گوادر پورٹ ‘ ساحلی شاہراہ ‘ میرانی اور حب ڈیم ‘ ائیر پورٹ ‘ پٹ فیڈر اور کچھی کینال کچھ نمایاں نام ہیں جو وفاق نے بلوچستان میں بنائے ہیں ۔صوبائی حکومت کسی ایک بڑی اسکیم کا تذکرہ نہیں کرسکتی ۔ سالانہ 54ارب روپے ضائع ہورہے ہیں بلکہ ان کو 65اراکین اسمبلی میں تقسیم کیاجاتا ہے ۔ اور یہ ہر سال ہوتا ہے حکومتی اہلکار اگر کوئی چھوٹی موٹی عوامی مفاد میں اسکیم پر عمل درآمد کرتی ہے تو بعض متعصب ایم پی اے حضرات اس کو تعصب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں بلکہ گزشتہ دنوں یہ واقعہ پیش آیا کہ وزیراعظم نے کوئٹہ کے دورے کے دوران دس ارب روپے کوئٹہ شہر میں سہولیات کی فراہمی کیلئے دئیے، ادھر سے زبردست مطالبہ بلکہ دباؤ آیا کہ وزیراعظم کے دس ارب روپے کے فنڈ کو 65اراکین میں تقسیم کیاجائے ۔ دوسرے معنوں میں کوئٹہ کے عوام کو بنیادی سہولیات فراہم نہ کی جائیں ۔
لہذا ہمارا مطالبہ جائز ہے کہ ایم پی اے حضرات کو ترقی اور منصوبہ بندی سے الگ کیاجائے اور اس کو ماہرین کے حوالے کیاجائے ۔ 54ارب روپے منصوبہ بندی کے تحت بڑے بڑے منصوبوں پر خرچ کیے جائیں اور اراکین اسمبلی سے کہا جائے کہ وہ صرف قانون سازی کریں جیسا کہ وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک نے مشورہ دیا ہے ۔