|

وقتِ اشاعت :   August 10 – 2015

کابل: افغان صدر اشرف غنی نے پیر کے روز دارالحکومت کابل میں حالیہ دہشت گرد حملوں میں کم از کم 56 افراد ہلاک ہونے کے بعد پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ غنی نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ ‘پچھلے کچھ دنوں کے دوران پتہ چلا ہے کہ پاکستان میں موجود بم بنانے والی فیکٹریاں اور ٹریننگ کیمپ ابھی بھی اتنے ہی سرگرم ہیں جتنے پہلے تھے۔’ افغان صدر نے کہا کہ ‘ہمیں امن کی امید تھی تاہم ہمیں پاکستان کی جانب سے جنگ کے پیغامات مل رہے ہیں۔’ اشرف غنی کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے افغانستان میں ہوں تو اسلام آباد کا کیا ردعمل ہوگا؟ گزشتہ سال اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغان صدر امید کررہے ہیں کہ اسلام آباد طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا۔ تاہم پیر کے روز آنے والے بیانات پاکستان کے خلاف اشرف غنی کے سخت ترین بیانات ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم نواز شریف کو ٹیلی فون پر انہوں نے بتایا کہ پاکستان افغانستان میں دہشت گردی کو اسی نظر سے دیکھے جیسے کہ وہ پاکستان میں دیکھتا ہے۔ خیال رہے کہ جولائی میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا پاکستان میں آغاز ہوا تھا تاہم طالبان کے امیر ملاعمر کی ہلاکت کے اعلان کے بعد مذاکرات کا دوسرا دور ملتوی کردیا گیا—اے ایف پی۔

دفتر خارجہ کا ردعمل

دوسری جانب افغان صدر کے بیانات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے دفتر خارجہ کے ایک اعلامیے میں کہا گیا کہ افغانستان اور پاکستان برادر ہمسایہ ممالک ہیں اور پاکستان افغانستان سمیت خطے کے تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے جس کے باعث ملک میں 60 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ وزیراعظم نواز شریف نے رواں سال مئی میں اپنے دورے کے دوران کہا تھا کہ پاکستان افغانستان کے دشمنوں کا اپنا دشمن سمجھتا ہے اور دہشت گردی کے لڑنے کے لیے مکمل تعاون کررہا ہے۔