|

وقتِ اشاعت :   August 10 – 2015

عمران خان کی مسلسل اشتعال انگیزیوں کے باوجود متحدہ اور جمعیت نے اپنی اپنی قرار دادیں واپس لے لیں جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ تحریک انصاف کے اراکین چالیس روز سے زائد جان بوجھ کر قومی اسمبلی سے غیر حاضر رہے اس لئے ان کی ایوان سے رکنیت ختم کی جائے ۔
وزیراعظم پاکستان اور اسپیکر قومی اسمبلی نے متحدہ کے رہنما الطاف حسین سے بات کی اور مولانا فضل الرحمان سے اپیل کی کہ وہ جمہوریت اور اس کی دیرپا بقاء کی خاطر تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے خلاف قرار داد واپس لے لیں ۔ دونوں پارٹیوں نے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرار دادیں واپس لیں حالانکہ عمران خان اس دوران بھی توقع کے مطابق بد زبانی کرتے رہے اور دونوں رہنماؤں کے خلاف کیا کچھ نہیں کہا۔
بہر حال عوام الناس نے متحدہ اور جمعیت کے جمہوری اسپرٹ کی تعریف کی اور ملک کو ایک اوربھونچال سے بچایا ۔
اس میں مسلم لیگ ن اور پی پی پی کا بڑا ہاتھ ہے ۔ دونوں پارٹیوں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ قراردادوں کی کسی طرح بھی حمایت نہیں کریں گے اور متحدہ اور جمعیت پر زور دیں گے کہ جمہوری روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی قرار داد واپس لیں ۔ تحریک انصاف کے ایوان میں 35اراکین ہیں 35حلقہ انتخاب میں دوبارہ انتخابات کا مطلب صاف اور واضح طورپر ایک منی جنرل الیکشن ہے جو حکومت اورجمہوری اداروں کے مفاد میں نہیں ہے۔ ان 35حلقوں میں بھونچال پیدا ہوتا یعنی پاکستان کے ایک بہت بڑے حصے کو غیر یقینی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا کہ کل کیا ہوگا؟ حکومت تو مستحکم ہے ان انتخابات سے اس کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔
ممکن ہے کہ مسلم لیگ اور پی پی پی دو چار سیٹیں جیت بھی جاتیں مگر جمہوری ادارے عدم استحکام کا شکار ہوتے ،معیشت پر انتہائی بر ااثر پڑ سکتا تھا اور کاروبار ان حلقوں میں ٹھپ ہوجاتا ۔ یہ بڑا اچھا ہوا کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے بھی اس میں ایک بڑا کردار ادا کیا اور ملک کو ایک مشکل سے نکال دیا ۔ انتخابات کی صورت میں پورے ملک کی سیاسی فضاء کشیدہ ہوتی اور مخالفین آپس میں دست وگریبان ہوتے۔ اب اس سے عمران خان کو ایک سیاسی سبق حاصل کرنا چائیے کہ سیاست میں روارداری ایک بہت بڑی نعمت ہوتی ہے ان کے مخالفین عمران کی مدد کو آئے اور انہوں نے تحریک انصاف کے اراکین کے خلاف قرارداد واپس لے لی ۔
حالانکہ عمران خان دھونس اور دھمکیاں دے رہے تھے اور مولانا فضل الرحمان کے خلاف بد زبانی کررہے تھے اب عمران خان کو یہ سبق بھی حاصل کرنا چائیے کہ قومی اسمبلی یا پارلیمان کا مذاق نہ اڑائیں اور اراکین پر الزامات نہ لگائیں ۔ ایوان بری یا بھلی ہے ‘ عمران خان اور اس کے ساتھی اس کے رکن ہیں ان کا وزیراعظم بننے کا خواب چکنا چور ہوگیا ہے اب دور دور تک اس کا اشارہ نہیں کہ عمران خان مستقبل بعید میں بھی وزیراعظم بن سکیں گے۔ اگر ان کے وزیراعظم بننے کے کبھی اتفاقی طورپر امکانات پیدا ہوئے بھی تو پورا پاکستان اس کے خلاف متحد ہوجائے گا اور اس کو وزیراعظم نہیں بننے دے گا۔
وجہ یہ ہے کہ عمران خان سیاسی آدمی نہیں ہیں ۔ ان کے پاس سیاسی وژن نہیں ہے نہ ہی ان کو بنیادی سوجھ بوجھ ہے کہ امور مملکت کو کس طرح چلانا ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے قریبی لوگوں کے زیادہ امکانات ہیں کہ وہ تحریک انصاف کی جانب سے وزیرعظم بن جائیں ۔ الغرض عمران خان کے امکانات بہت ہی محدود ہیں انہوں نے جسٹس وجہیہ الدین اور حامد خان جیسے اچھے لوگوں کا اعتماد لوٹوں کے بدلے کھو دیا ۔ عمران خان نے یہ ثابت کردیا کہ اس کو بھی سیاسی لوٹے ہی پسند ہیں ۔