ہم یہ بات بڑے دکھ سے لکھتے ہیں کہ بلوچستان کی معیشت کے تین اہم ترین شعبوں ‘ زراعت‘ گلہ بانی اور ماہی گیری کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ۔ اس کا زیادہ افسوس ہے کہ اس کو موجودہ دور حکومت، جس کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک ہیں ،میں بھی نظر انداز کیاجارہا ہے ۔ حقائق یہ ہیں کہ یہ تین شعبے ستر فیصد سے زائد لوگوں کو روزگار اور خوراک فراہم کرتے ہیں اوریہی شعبے نظر انداز رہتے ہیں ۔
اگر پانی کے وسائل کی ترقی پر توجہ دی جاتی تو دو کروڑ ایکڑ زرخیز زمین آباد ہوتی ۔ بلوچستان نہ صرف اضافی خوراک پیدا کرتا بلکہ پھلوں کی بر آمد سے کروڑوں ڈالر کما سکتا تھا ۔ وفاقی حکومت نے کچھی کینال کی تعمیر میں بیس سال سے زائد کا عرصہ لگادیا کہ اس کی تعمیر کے بعد بلوچستان کو دریائے سندھ کے نظام سے دس ہزار کیوسک اضافی پانی دینا پڑے گا جس سے سات لاکھ سے زیادہ ایکڑ زمین آباد ہوگی ۔
اگر یہ کام بیس سال پہلے ہوجاتا تو بلوچستان کو مالی اور معاشی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ یہاں پر وفاقی حکومت کی بد نیتی صاف اور واضح طورپر نظر آرہی ہے کہ پہلے تو کچھی کینال تعمیر نہ کرنا اور پھر بلوچستان کو مفلوک الحال رکھنا ۔ بظاہر ہر سال بلوچستان کی ترقی کے لیے پچاس ارب سے زیادہ رکھے جارہے ہیں لیکن اس سے عوام کو معاشی فائدہ نہیں پہنچ رہا ۔ یہ رقوم غیر اہم یا گٹر اسکیموں میں ضائع ہورہی ہے ۔
ایم پی اے حضرات کا ترقی اور منصوبہ بندی کے شعبے سے کوئی تعلق نہیں ۔ لہذا یہ سرکاری فنڈز کو ذاتی دولت کا حصہ سمجھتے ہیں اور اسی مناسبت سے خرچ کرتے ہیں ،وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں۔ نیب اور ایسے دوسرے ادارے اس معاملے میں اندھے ہیں وہ منشی اور کلرک پکڑنے میں لگے ہوئے ہیں یا وہ افراد جن کو وہ نا پسندیا نفرت کرتے ہیں ان کے خلاف کارروائی ہورہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبائی حکومت کثیر فنڈ زراعت ‘ گلہ بانی اور ماہی گیری پر خرچ کرے اور اپنی ترجیحات میں تبدیلی لائے تاکہ صوبہ اور صوبے کے عوام خوشحال ہوں ۔
بلوچستان کا ساحل 1200کلو میٹر طویل ہے ۔حکومت بلکہ بین الاقوامی امدادی اداروں نے پسنی فش ہاربر بنایا وہ بھی ناکام ہوگیا اس کی بنیادی منصوبہ بندی میں نقص تھا اس کا چئیرمین کوئٹہ میں بیٹھا رہا اور ایم ڈی کراچی میں اور فش ہاربر پسنی میں تعمیر ہورہا تھا۔ اس منصوبے کے لئے ہر سال حکومت بلوچستان ماہی گیری کے شعبے میں سرکاری ملازموں کے لئے تنخواہیں مختص کرتی ہے اس کی ترقی کیلئے کوئی فنڈ نہیں ۔1200کلو میٹر ساحل غیر آباد ہے اور غریب ماہی گیروں کی ماہی گیری کو ترقی دینا تو دور کی بات ہے ہم اپنے آبی حیات کی حفاظت نہیں کرسکتے ۔ ہزاروں کی تعداد میں کشتیاں اور ٹرالرز کراچی سے آکر غیر قانونی طورپر مچھلی کا شکار کرتے ہیں ،
ظلم خدا کا وہ ایسا جال استعمال کررہے ہیں جو سمندر کے اندر آبی حیات کو ختم کررہا ہے اور تباہ کررہا ہے ۔ تاریخی طور پر وزراء اور افسران رشوتیں لے کر غیر قانونی ماہی گیری کی سرپرستی کرتے رہے اور کررہے ہیں ۔ ہزاروں ٹرالرز ہیں اور ہر ٹرالر ہر ماہ پچاس ہزار روپے رشوت دیتا ہے ۔ بعض ٹرالروں کی سرپرستی وفاقی ادارے دیدہ دلیری کے ساتھ کررہے ہیں ۔ موجودہ جمہوری نظام میں ترقی تو کیا ہم اپنے آبی حیات اور سمندری وسائل کا دفاع کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
اس لئے ضروری ہے کہ حکومت بیس سالہ ترقیاتی پلان بنائے اور ہر سال پانچ ماہی گیری کے دیہاتوں کو جدید خطوط پر منظم کرے اور ان کو وہ رقوم ،وسائل اور کشتیاں فراہم کی جائیں جو جدید ماہی گیری کے لئے ضروری ہے تاکہ وہ بلوچستان کی تیز رفتار ترقی میں اپنا کردار ادا کریں ۔ ایم پی اے فنڈ صرف اور صرف ذاتی مقاصد یا ذاتی نام و نمود کیلئے ہے عوام الناس کے لئے نہیں ہے ۔ لہذا ان وسائل کو دیر پا ترقی کے لئے استعمال میں لایا جائے ۔