|

وقتِ اشاعت :   August 11 – 2015

پنجاب میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے بعد ایک اشتعال پھیلا ہوا ہے ۔ لوگوں نے احتجاج کیا ‘ پولیس نے مظاہرین کو منتشرکرنے کیلئے لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے گولے پھینکے ۔ مظاہرین نے پولیس پر الزامات لگائے کہ انہوں نے تفتیش کا رخ موڑنے کے علاوہ ملزمان کی پشت پناہی کی اور بعض طاقتور اور اثرورسوخ رکھنے والوں کو گرفتار نہیں کیا بلکہ ان کی مدد کی کہ وہ مقامی عدالتوں سے ضمانت قبل از گرفتاری کروالیں ۔ جب معاملہ طول پکڑ گیا اور پوراپاکستان سراپااحتجاج بن گیا تو پولیس نے چند لوگوں کو گرفتار کیا اور بعض ملزمان سے اقبالی بیانات بھی ریکارڈ کروائے ۔ یہ اسکینڈل شدید ترین نوعیت کا ہے ۔ اس کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔دیدہ دلیری اس حد تک بڑھ گئی کہ ملزمان نے بچوں کے ساتھ زیادتی کی ویڈیو بھی بنائی جو بازارمیں دستیاب ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ گھناؤنی جرائم کے پس پشت فحش فلم بنانے والے عناصر بھی شامل ہیں ۔ اس قسم کی سرگرمیاں صرف مقامی پولیس ، طاقتور اور بااثر شخصیات کی پشت پناہی کے بعد ہی ممکن ہے ۔ اسی دوران قصور میں اعلیٰ ترین پولیس افسر نے تفتیش کا رخ موڑنے کے لئے اخباری نمائندوں کو گمراہ کرنے کے لئے یہ کہہ دیا کہ یہاں دو گرہوں کا زمین کے مسئلے پر تنازعہ ہے ۔ اس تاویل کو کسی نے بھی قبول نہیں کیا۔ زمین کے تنازعے میں بچوں کو کیوں زیادتی کا نشانہ بنایا جائے ۔ پھر اس کی ویڈیو فلم اور وہ بھی بازار میں فروخت ہوگئی ان میں سے بعض ویڈیوز پولیس نے قبضے میں لے لیں اور ان کی مدد سے بعض ملزمان کی نشاندہی بھی ہوگئی ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمین کے تنازعے میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے اسکینڈل کا کوئی واسطہ نہیں ۔ پولیس نے اپنی ساکھ بچانے کی خاطر زمین کا تنازعہ اس اسکینڈل کے ساتھ منسلک کردیا، دوسری جانب ٹی وی کیمرے پر بھی لوگوں خصوصاً والدین کے انٹر ویوز ٹیلی کاسٹ کیے گئے جس سے یہ ثابت ہوگیا کہ یہ گھناؤنا کاروبار گزشتہ دس سال سے چل رہا ہے ، یہ ممکن نہیں کہ پولیس کو اس کا علم نہ ہو۔ اب پنجاب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ جرائم کو عدالتوں میں ثابت کرنے کے لئے کارروائی کرے اور اس بات کی یقین دہانی کی جائے کہ ملزمان کی سرکاری طورپر کوئی مدد نہیں کی جائے گی اور ان کو بچانے کا کوئی انتظام نہیں ہوگا۔ عدالتوں میں ثابت ہونے کے بعد ان کو عبرتناک سزائیں دی جائیں تاکہ پاکستان بھر میں کسی بھی مجرم کو یہ ہمت نہ ہو کہ وہ ایسے گھناؤنے جرائم میں ملوث ہو ں ۔ ادھریہ سکینڈل سے طشت از بام ہونے کے بعد سیاسی پارٹیوں نے بھی کمر کس لی ۔ تحریک استقلال پنجاب اسمبلی اور قومی اسمبلی میں یہ معاملہ اٹھائے گی ۔ پی پی پی پہلے ہی قومی اسمبلی میں اس بات کو زیر بحث لانا چاہتی ہے ۔ اب پنجاب کی حکومت جو اچھی گورننس کی دعویدار ہے پریشان نظر آتی ہے۔ اس بحث کو رکوانے کے لئے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے فوراً عدالتی کمیشن چابکدستی سے بنا دی تاکہ سیاسی پارٹیاں اس پر عام جلسوں اور اسمبلی کے ایوانوں میں بحث نہ کریں۔ شاید پی پی پی اور تحریک استقلال اس بات کو نہیں مانیں گے کہ چونکہ عدالتی کمیشن بن چکا ہے لہذا اس پر بحث نہ کی جائے، ان دونوں پارٹیوں کو بہت عرصے بعد یہ موقع ملا ہے کہ پنجاب کے متکبر وزیراعلیٰ کی اچھی طرح خبر لیں اور یہ ثابت کریں کہ صوبائی پولیس اس اسکینڈل میں ملوث ہے اور صوبائی حکومت ان مجرمانہ حرکات کو تحفظ دینا چاہتی ہے ۔