|

وقتِ اشاعت :   August 12 – 2015

کوئٹہ:  بلوچ سالویشن فرنٹ کے مرکزی ترجمان نے 11اگست’’ یوم آجوئی‘‘ کے حوالہ سے اپنے جاری کئے گئے بیان میں کہاہے کہ 11اگست بلوچ سیاسی تاریخ میں اہمیت کا حامل اور ایک تاریخ ساز دن ہے یہ1839سے لے کر 1947تک ایک طویل جدوجہد کا نتیجہ ہے برٹش توسیع پسندوں کے انخلاء کے بعد11اگست 1947کو بلوچ ریاست کو دنیا کے نقشہ میں ایک آزاد قومی ریاست کی شکل میں تسلیم کیا گیا ترجمان نے کہاکہ تاج برطانیہ کے خلاف بلوچ قوم نے ایک انتھک، طویل سیاسی سفارتی اور مزاحمتی جدوجہد لڑی جو انگریزوں کی بلوچستان میں عملداری اور اثر و رسوخ کے لئے کافی مشکلات پیدا کی ایک طرف برصغیر میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی جارہی تھی تو دوسری طرف بلوچ قوم بھی اپنی آزادی اور وطن کی حفاظت کے لئے جدوجہد کا سلسلہ تیز کردیا مری علاقون سمیت مکران جہالاوان اور بلوچستان بھر میں انگریزی قبضہ کے خلاف بلوچ برسرپیکار تھے اگرچہ برٹش توسیع پسندوں نے بلوچ جغرافیہ کو بے رحمی کے ساتھ تقسیم کرکے مشترکہ بلوچ آبادی کے درمیان خونی لکیریں کھینچ کر بلوچ قوم کو بیک وقت مختلف ممالک کے ساتھ جنگ میں دھکیلا دیا بلوچ قوم کی قوت کو منتشر کرنے کی کوشش کی لیکن بلوچ قوم اپنی جدوجہد اورکوششوں سے بلوچستان کے ایک وسیع حصہ کو انگریزوں سے آزاد کرایا گو کہ جنگ عظیم دوئم کے تباہ کاریوں نے انگریزوں کے کمر توڑدیئے تھے اور وہ اس خطے سے جانے کا فیصلہ کرچکے تھے لیکن انہوں نے جاتے جاتے بلوچستان کی آزادو خودمختیارحیثیت کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیاکہ بلوچستان کی حیثیت برصغیر کے دیگر ریاستوں کی طرح نہیں بلکہ یہ ایک آزاد و خودمختار ملک ہے لیکن ریاست پاکستان نے الحاق کے لئے بلوچ پارلیمنٹ کو ایک پیغام بھیجا جس کے رد عمل میں بلوچ کانفیڈرنسی نے الحاق کے شرط کو دوٹوک الفاظ میں مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ الحاق کی شرط ہماری آزادی اور خود مختاری کے خلاف اور 4اگست 1947کو بلوچ ریاست اور پاکستان کے درمیان ہونے والے معائدہ کے منافی ہے جس میں پاکستانی ریاست بلوچستان کی آزاد و خود مختیار حیثیت کو تسلیم کرچکے ہیں انہوں نے کہاکہ الحاق ایشیاء کے کروڑوں بلوچوں کی موت کی دستاویز پر دستخط کرنے کی مترادف ہے انہوں نے بلوچ کانفیڈرنسی کے الحاق کے خلاف فیصلہ کو پاکستان کے محکمہ خارجہ کو بھیج دیا گیا لیکن 27مارچ1948کو ریاست پاکستان نے صرف بلوچ جمہوری ایوانوں کی فیصلوں کی خلاف ورزی کی بلکہ بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے طاقت کے زور پر بلوچستان کا جبری الحا ق کرتے ہوئے ایک آزاد و پر امن قوم کو طویل غلامی میں دھکیل کر ان کی آزادی غصب کی اگرچہ ریاست پاکستان اس الحاق کو اس وقت کے بلوچ حکومت کے آئینی سربراہ احمد یار خان کے ساتھ جھوٹے معائدوں کے ساتھ جوڑ کر کے اسے قانونی قرار دینے کے بارہا مضحکہ خیز کوششیں کرتی ہے لیکن بلوچ کانفیڈرنسی کا فیصلہ ریاست کے اس بے بنیاد موقف پر ایک زور طمانچہ ہے احمد یار خان نے اپنے خودنوشت سوانحوں میں اس بات کا بارہا زکر کیا ہے کہ الحاق جبری تھا فوجی طاقت کے زریعہ بلوچ انتظامیہ کو ختم کیا گیا ترجمان نے کہاکہ جبری الحاق کروڑوں بلوچوں کی رائے اور منشاء کے خلاف ہے اسے کوئی قانونی و اخلاقی جواز حاصل نہیں برٹش توسیع پسندوں نے خطے میں جو تنازعات پیدا کئے بلوچ مسئلہ اس میں سب سے بڑا تنازعہ ہے اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کو دہرا معیار ترک کے حل طلب بلوچ قومی مسئلہ کے حوالہ سے اصولی بلوچ موقف کو غیر مشروط طور پر تسلیم کرتے ہوئے بلوچ وطن پر جبری تسلط اور ڈیورنڈ و گولڈ سمتھ لائن کی غیر فطری حیثیت کو سمجھتے ہوئے آزاد و متحدہ بلوچستان کے قیام میں بلوچ قوم کا ساتھ دیں اور بلوچ قوم کو اپنے آزادی کے حوالہ سے دنیا بھر میں آزادانہ سفارت کاری کی اجازت دی جائے