متحدہ کے رہنماء اور قومی اسمبلی میں پارٹی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوگئے ہیں۔ ان کا ڈرائیور دوران علاج ہلاک ہوگیا جبکہ ان کی بیگم اس دہشت گردانہ حملے میں محفوظ رہیں ۔ رشید گوڈیل کو پانچ گولیاں سر، سینے اور چہرے پر ماری گئیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قاتل رشید گوڈیل کو موقع پر ہلاک کرنا چاہتے تھے کیونکہ تمام گولیاں ان کے جسم کے حساس ترین حصوں پر لگے ہیں ۔ اسپتال ذرائع نے بتایا کہ ان کے جسم سے گولیاں نکال لی گئیں ہیں تاہم ان کی حالت انتہائی تشویش ناک ہے اور اگلے دو دن اس کی زندگی کے لئے اہم ہوں گے، وہ ابھی تک بے ہوش ہیں تاہم یہ معلوم نہ ہوسکا کہ علاج کا ان پر کیا اثر ہورہا ہے ۔ رشید گوڈیل اپنے گھر سے اپنی بیگم کے ہمراہ نکلے تھے کہ دو موٹر سائیکل سواروں نے ان پر اچانک قریب سے حملہ کردیا اور ان کو شدید زخمی کردیا جبکہ ان کا ڈرائیور زخموں کی تاب نہ لا کر ہلاک ہوگیا ۔ ابھی تک کسی گروہ نے اس کی ذمہ داری نہیں لی ہے ۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ یہ دہشت گردی کا بھیانک واقعہ ہے اور متحدہ میں سب سے زیادہ شریف اور کم گو انسان کو نشانہ بنایا گیا ۔ ان کو کیوں نشانہ بنایا گیا یہ معلوم نہیں ہوسکا ۔ نہ ہی متحدہ کے ذرائع اور رہنماؤں نے اس پر تبصرہ کیا، اس لئے قیاس آرائی مناسب نہیں ہے ۔ یہ بات واضح ہے کہ اس قاتلانہ حملے کا تعلق حالیہ سیاسی بحران سے ہے جو متحدہ کے اراکین اسمبلی اور سینٹ کے اراکین کے استعفیٰ کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ ان پر قاتلانہ حملہ اس وقت ہوا جب مولانا فضل الرحمان متحدہ کے دفتر پہنچ چکے تھے اور انہوں نے مذاکرات مثبت انداز میں شروع کیے تھے کہ یہ واقعہ پیش آیا اور مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے۔ اشارے یہی تھے کہ ان مذاکرات کا مثبت نتیجہ سامنے آئے گا مگر اب مذاکرات ملتوی ہوئے ہیں اور دوسرا راؤنڈ اسلام آباد میں ہوگا۔ اس سے قبل مولانا فضل الرحمن کی الطاف حسین سے بات چیت ہوئی تھی انہوں نے بھی مثبت رد عمل کا اظہار کیا تھا اور توقع تھی کہ پہلے اجلاس میں زبردست پیش رفت ہوگی ۔ رشید گوڈیل پر حملہ ایک بزدلانہ دہشت گردی کی کارروائی ہے ۔ لوگوں کا قیاس ہے کہ یہ کارروائی صرف مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش ہے تاکہ پاکستان میں سیاسی بحران طول پکڑ جائے ۔ یہ مقصد صرف پاکستان کے دشمنوں کا ہوسکتا ہے کہ ملک میں عدم استحکام کی فضاء قائم رہے اور لوگ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دشمن ممالک کی سیکورٹی ایجنسیاں پاکستان میں سرگرم ہیں اوروہ دہشت گردی کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے دشمن ممالک کے سیکورٹی اداروں اور ان کے ایجنٹوں پر کڑی نگاہ رکھی جائے اور ان کے اہلکاروں کا پتہ لگا کر ان کو گرفتار کر لیا جائے ۔اگر واقعہ مقامی دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے ہوتا تو فوراً وہ اس کی ذمہ داری قبول کر لیتے مگر یہ زیادہ پیچیدہ معاملہ معلوم ہوتا ہے۔ اس واردات میں انتہائی تربیت یافتہ دہشت گردوں نے کارروائی کی اور واردات کے بعد غائب ہوگئے ۔ بظاہر متحدہ اور حکومت کے تعلقات سے اس واقعے کا کوئی سروکار نہیں کیونکہ وزیراعظم نے ان کے استعفےٰ قبول کرنے سے انکار کیا ہے اور مولانا فضل الرحمان کو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ متحدہ کے رہنماؤں سے بات چیت کریں اور ان کو اس بات پر راضی کریں کہ وہ اپنے استعفیٰ واپس لے کر پارلیمان میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں ۔ حکومت ان کے تحفظات پر بات چیت کو تیار ہے بلکہ ان کو دور کرنے کے لئے اقدامات اٹھانے کو بھی تیار ہے ۔ تاہم یہ سیکورٹی اداروں کا فرض ہے کہ اس واقعہ میں ملوث دہشت گردوں کو ڈھونڈ نکالیں اور ان کو گرفتار کریں تاکہ ملک میں ا من رہے اور لوگ سکون سے زندگی بسر کریں ۔
رشید گوڈیل پر قاتلانہ حملہ
وقتِ اشاعت : August 21 – 2015